ایک شخص نے دو بہنوں کو ایک ہی نکاح میں رکھا ہے جو کہ سراسر حرام ہے اور لوگوں کے سمجھانے پر ان کاکہنا ہے کہ میری جان چلی جائے گی پھر بھی دونوں سے الگ نہیں رہ سکتا تو کیا ایسے شخص کے مال و دولت کو مسجدوں میں لگا سکتے ہیں جیسا کہ وہ اگر اپنی ملکیت کی زمین مسجد کے نام کرے تو کیا جائز ہے یا نہیں؟ ان کی زمین پر مسجد بنوانا درست ہے یا نہیں؟
از رُوئے شرع دوبہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنے سے نکاح منقعد ہی نہیں ہوتا، مذکورہ شخص حرام کاری میں مبتلاء ہے، جس کی وجہ سے اس پر لازم ہےکہ وہ صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرے، اور اگر وہ اس خلافِ شرع کام کا علم ہونے کے باوجود توبہ تائب نہیں ہوتا تو دیگر لوگوں کی عبرت کے لیے ان سے قطع تعلق کیاجائے،ایسے لوگوں کے ساتھ تعلق قائم رکھ کر ہم دردی کرنا گناہ اور غلط کاموں میں معاونت اوران کی حوصلہ افزائی ہے، بشرطیکہ اس قطع تعلق کے نتیجے میں اس کی اِصلاح کی امید ہو، اور اگر قطع تعلق سے اس کے مزید بگڑنے کا اندیشہ ہو، اور وقتًا فوقتًا سمجھانا زیادہ مفید ہو تو قطع تعلق نہ کیا جائے، بلکہ گاہے گاہے اسے حکمت سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی طرف سے ملنے والی ملکتی زمین اگر حلال رقم سے خریدی گئی ہےتو اس صورت میں اس کی طرف سے ملنے والی زمین مسجد کے لئے لینا جائز ہوگااور اس پر مسجد تعمیر کرنا بھی درست ہے۔
الاشباہ و النظائر میں ہے:
"إذا كان غالب مال المهدي حلالا، فلا بأس بقبول هديته، وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام، وإن كان غالب ماله الحرام لا يقبلها، ولا يأكل إلا إذا قال: إنه حلال ورثه أو استقرضه۔"
(الاشباہ و النظائر، الفن الاول، النوع الثانی، القاعدۃ الثانیہ: اذا اجتمع الحلال و الحرام غلب الحرام، ص: 96، ط: دار الکتب العلمیہ)
فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:
" أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر و هو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."
(قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، 10/497،ط:دارالمعرفۃ بیروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144504102414
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن