میری بہن کاانتقال ہوا، ان کےشوہراوروالدین کاانتقال پہلےہوچکاہے،کوئی اولادنہیں، ورثاء میں ایک بھائی اوردوبہن ہیں، بھائی کہہ رہاہےکہ مرحومہ بہن کےکل ترکہ کے50فیصدمجھےملےگا، جب کہ بہنیں کہہ رہی ہیں کہ یہ ہماری بہن کی جائیدادہےنہ کہ ہمارےوالدین کی، ہمارےوالدین کی جائیدادہوتی توبھائی کو50فیصدملتا۔
اب بہن کی ترکہ کی تقسیم کیسےہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کےحقوقِ متقدمہ(یعنی کفن دفن کا خرچ نکالنے کے بعد ،اور اگر مرحومہ پر کوئی قرض ہو توکل مال سے اس کو اداکرنے کے بعد ،اور اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو باقی ترکہ کے ایک تہائی ترکہ میں نافذ کرنے کے بعد )باقی کل منقولہ وغیرمنقولہ ترکہ کو4حصوں میں تقسیم کرکے2حصےبھائی کواورایک ایک حصہ ہربہن کوملےگا۔صورتِ تقسیم درج ذیل ہے:
میت(بہن):مسئلہ:4
بھائی | بہن | بہن |
2 | 1 | 1 |
یعنی 100فیصدمیں سے50فیصدبھائی کواور25-25فیصدہربہن کوملےگا۔
بہنوں کایہ کہناکہ چونکہ یہ مرحومہ کی ذاتی جائیدادہےنہ کہ والدین کی اس لیےبھائی کو50فیصدنہیں ملےگا درست نہیں، کیونکہ شرعاًبہن کی میراث میں بھی بھائی کاحصہ بہن کےحصےکےمقابلےمیں دگناہے ۔
ارشادِربّانی ہے:
{لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ} (سورۃ النسآء، الآیة:11)
”لڑکےکاحصہ دولڑکیوں کےحصہ کےبقدرہے“(معارف القرآن)
تفسیرابن کثیرمیں ہے:
"فقوله تعالى: {يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين} أي: يأمركم بالعدل فيهم، فإن أهل الجاهلية كانوا يجعلون جميع الميراث للذكور دون الإناث، فأمر الله تعالى بالتسوية بينهم في أصل الميراث، وفاوت بين الصنفين، فجعل للذكر مثل حظ الأنثيين؛ وذلك لاحتياج الرجل إلى مؤنة النفقة والكلفة ومعاناة التجارة والتكسب وتجشم المشقة، فناسب أن يعطى ضعفي ما تأخذه الأنثى."
(سورۃالنساء، الآية:11، ج:2، ص:225، ط: دار طيبة للنشر والتوزيع)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث."
(كتاب الفرائض،الباب الأول في تعريف الفرائض وفيما يتعلق بالتركة،ج:6،ص:447،ط:دار الفكر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604100010
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن