بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بھائیوں کا والدہ مرحومہ کی طرف سے قربانی کرنا


سوال

کیا دو بھائی آپس میں پیسے ملا کر اپنی مرحومہ والدہ کی طرف سے قربانی کر سکتے ہیں؟

جواب

چند افراد مل کر مشترکہ رقم سے کسی میت کے ایصالِ ثواب کے لیے ایک حصہ قربانی کرنا چاہیں تو اس کی صورت یہ ہے کہ سب لوگ اپنے حصے کی رقم کسی ایک کو ہبہ کر دیں اور وہ قربانی کا ایک حصہ اس مرحوم کے نام پر کردے جس کے نام پر سب قربانی کرنا چاہتے ہیں، اس سے قربانی بھی ہوجائے گی اور میت کو ثواب بھی مل جائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں دنوں بھائیوں میں سے کوئی ایک بھائی دوسرے بھائی کو قربانی کی رقم ہبہ کر دے اور اسے اس رقم کا مالک بنا دے اور جسے مالک بنایا ہے وہ پھر والدہ کی طرف سے قربانی کر لےتو والدہ کی طرف سے قربانی ادا ہوجائے گی۔(ماخوذ از قربانی کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا ص: ۱۶۸)

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

سوال: کیا فرماتے ہیں علماءِ دین  و مفتیانِ  شرع مبین کہ لوگ ایک سال کے لیے مزدور رکھتے ہیں، اس کی اجرت  کے اندر ایک سال کا کھانا بھی داخل ہے، کیا اس مزدور کو اپنی  قربانی  کے گوشت  سے کھانا کھلانا جائز ہوگا یا نہیں؟

یعنی اس کی اجرت  میں جو کھانا دیاجاتا  ہے  اس کھانا کو اپنی قربانی کے گوشت سے  کھلا سکتے ہیں یا  نہ؟

2۔ دیگر  یہ ہے کہ محلہ میں بیس یا تیس گھر والوں پر ایک ایک سردار  ہوتے ہیں جس کو ہمارے اصطلاح  میں شماز کہتے ہیں، اب قربانی  کرنے والے لوگ اپنی قربانی  کے گوشت کو تین حصہ کرتے ہیں ایک حصہ خود رکھتے ہیں اور دو حصہ ان شمازیوں کو دیتے ہیں اور اپنی قربانی کو  چھیلنا اور کوٹنا وغیرہ یعنی قصائی  کا کام شمازیوں سے لیتے ہیں اور اگر کوئی شخص کام کرنے کے لیے حاضر نہ ہو تو ان کو سردار  صاحب بہت برا  بھلا کہتے ہیں،  کبھی کبھی ان کو گوشت  کے حصہ سے محروم کیاجاتا ہے،  اور جو لوگ کام کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں وہ بھی محض  گوشت  کے خیال سے آتے ہیں، کیوں کہ ان کو گوشت  نہ ملے تو ہر گز کام کرنے کے لیے نہیں آئیں گے تو خلاصہ یہ ہے کہ شمازیوں سے قصائی کا کام لے کر ان کو قربانی کے گوشت  دینا  جائز ہوگا یا نہ؟

3۔ یہ ہے کہ چھ آدمی  مل  کر ایک  بیل قربانی  کے لیے خریدتے ہیں، اب چھ آدمی چھ حصہ  کو از طرف  خود، ساتواں حصہ کو  چھ آدمی  مل کر حضور ﷺ کے لیے قربانی  دیتے ہیں، اب یہ ساتواں  حصہ قربانی  ہوگی یا نہ؟ ہونے کی صورت  پر باقی چھ  حصہ قربانی میں فتور آئے گا یا نہ؟

بینوا توجروا عنداللہ الجلیل ۔

جواب 1: بہتر  یہ ہے  کہ قربانی  کے ایام  میں اس کے کھانے میں کچھ زیادتی کردی جائے، تاکہ قربانی  کا گوشت  معاوضہ ملازمت سے زائد ہو جائے ۔

2: ظاہر ہے کہ قربانی کا گوشت کسی خدمت کے معاوضہ میں دینا حرام ہے اور جو کسی نے دیا ہے، اس کی قیمت لگا کر صدقہ کرنا واجب ہے۔

3: ساتویں حصہ میں کئی آدمیوں  کی شرکت  کی وجہ سے  یہ قربانی ناجائز ہوگئی۔

واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ

دارالعلوم  کراچی

۲۱ /صفر ۱۳۷۸ھ

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما قدره فلايجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر، فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس. فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لايذبح من أمته، فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟ (فالجواب): أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولايجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء".

(كتاب الأضحية، ۵ / ۷۰، ط: سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 595):

''الأصل أن كل من أتى بعبادة ما،  له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه؛ لظاهر الأدلة. وأما قوله تعالى :﴿ وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ [النجم: 39] أي إلا إذا وهبه له، كما حققه الكمال، أو اللام بمعنى على كما في : ﴿وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ﴾ [غافر: 52]، ولقد أفصح الزاهدي عن اعتزاله هنا والله الموفق.

(قوله: بعبادة ما) أي سواء كانت صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءةً أو ذكراً أو طوافاً أو حجاً أو عمرةً، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، والشهداءوالأولياء والصالحين، وتكفين الموتى، وجميع أنواع البر، كما في الهندية، ط۔ وقدمنا في الزكاة عن التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلاً أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات؛ لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء.'' اه.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201078

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں