بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بھائیوں کا مل کر اپنے والد کے ایصالِ ثواب کے لیے ایک حصہ قربانی کرنے کا حکم


سوال

کیا دو  بھائی  مل کر اپنے  باپ  کی  طرف  سے قربانی کا ایک  حصہ  لے  سکتے  ہیں؟

جواب

دو بھائی اگر مل کر ایک حصہ اپنے والد کی طرف سے (ایصالِ ثواب کے  لیے) قربانی کرنا چاہیں تو   راجح قول کے مطابق قربانی صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے  کہ دونوں میں سے ایک  بھائی  اپنے حصے کی رقم دوسرے بھائی کو ہبہ (گفٹ) کردے، پھر ایک بھائی کی طرف سے نفلی قربانی اپنے والد کے ایصال ِ ثواب کے لیے کی جائے۔اس سے قربانی کرنے والے بھائی کو بھی ثواب ملے گا اور ان شاء اللہ دوسرا بھائی (جس نے اپنے حصے کی رقم ہبہ کردی ہے وہ) بھی پورے ثواب میں شریک ہو گا۔

    "بدائع الصنائع"  میں ہے:

'' وأما قدره فلايجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لايجوز فيهما الاشتراك؛ لأنّ القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لاتحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر، فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.

فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لايذبح من أمته، فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟

(فالجواب): أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، و لايجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء''.(5/70، کتاب الاضحیہ، ط: سعید)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں