بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بھائیوں کا مشترکہ قربانی کا جانور ذبح کر کے گوشت کو دو حصوں میں تقسیم کرنا


سوال

دو بھائی ہیں، وہ اپنے اپنے بچوں کی قربانی کے  لیے ایک گائے ذبح کرتے ہیں، جس میں سات حصے ہیں،ایک بھائی کے اہل خانہ کی طرف سے تین اور دوسرے کی طرف سے چار حصے ہیں، دونوں بھائی گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، جن میں ایک حصہ صدقہ اور باقی دو حصوں میں ایک ایک ہر بھائی کے اہل خانہ کے  لیے مختص کر دیتے ہیں، جن کی طرف سے قربانی کی گئی ہے، ان میں سے بعض اس تقسیم پر راضی نہیں ہیں، کیا یہ قربانی درست ہو گی؟

جواب

گوشت کی تقسیم سے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ بڑے جانور میں جب سات افراد شریک ہوں تو گوشت کو تول کر تقسیم کیا جائے، اندازے سے تقسیم نہ کیا جائے، ورنہ کوئی حصہ کم اور کوئی حصہ زیادہ ہونے کی صورت میں سود ہونے کی وجہ سے گناہ ہو گا، البتہ اگر گوشت کے ساتھ کلہ پائے اور کھال کو بھی شریک کر لیا تو جس طرف مذکورہ چیزیں ہوں اس طرف اگر گوشت کم ہو تو درست ہے،  چاہے جتنا بھی کم ہو، پھر  گوشت کو تول کر تقسیم کرنے کا حکم اُس وقت ہے جب حصہ دار الگ الگ گھروں میں  رہتے ہوں، کھانا پینا جدا جدا ہو، لیکن اگر تمام حصے دار ایک جگہ پر کھاتے ہیں، الگ الگ جگہ پر جدا جدا نہیں تو اس صورت میں گوشت کو تول کر تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں۔

پھر اگر قربانی میں شریک تمام افراد اس بات پر راضی ہوں کہ گوشت میں سے ایک حصہ صدقہ کر دیا جائے تو یہ جائز ہے، لیکن اگر کوئی ایک حصہ دار بھی اس کے خلاف ہو تو اس کا پورا حصہ اس کو تقسیم کر کے دینا ضروری ہو گا۔

اب صورتِ مسئولہ میں اگر ایک بڑا جانور سات افراد کی طرف سے ذبح کیا گیا تو یہ قربانی تو درست ہو گئی، لیکن اگر تقسیمِ مذکور  پر کوئی حصہ دار  راضی نہیں تھا تو اس کو راضی کرنا اور  اس کی چاہت کے مطابق گوشت کو تقسیم  کرنا ضروری تھا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 317):

’’و يقسم اللحم وزنًا لا جزافًا إلا إذا ضم معه الأكارع أو الجلد) صرفا للجنس لخلاف جنسه.

(قوله: و يقسم اللحم) انظر هل هذه القسمة متعينة أو لا، حتى لو اشترى لنفسه ولزوجته وأولاده الكبار بدنة ولم يقسموها تجزيهم أو لا، والظاهر أنها لا تشترط لأن المقصود منها الإراقة وقد حصلت. وفي فتاوى الخلاصة والفيض: تعليق القسمة على إرادتهم، وهو يؤيد ما سبق غير أنه إذا كان فيهم فقير والباقي أغنياء يتعين عليه أخذ نصيبه ليتصدق به اهـ ط. وحاصله أن المراد بيان شرط القسمة إن فعلت لا أنها شرط، لكن في استثنائه الفقير نظر إذ لا يتعين عليه التصدق كما يأتي، نعم الناذر يتعين عليه فافهم.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں