بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بھائی یا دو بہنوں کے ایک بستر پر سونے کا حکم


سوال

کیا دو بھائی یا دو بہنیں ایک بستر پر سو سکتے ہیں؟

جواب

دس سال سے کم عمر ميں دو بھائی يا دو بہنوں کا ایک بستر پر سونا جائز ہے، البتہ دس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے بستر الگ کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سات سال کی عمر میں اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر ان  کی پٹائی کرو  اور  ان  کے بستر بھی علیحدہ کردو۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد بچوں کو الگ بستر پر سلانا چاہیے، لہٰذا دو بھائی یا دو بہنوں کو بھی دس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد ایک بستر پر نہیں سونا چاہیے، اگر جگہ کی تنگی کی وجہ سے بڑے بستر  میں ایک سے زائد بھائیوں یا بہنوں کو سلانے کی مجبوری ہو تو درمیان میں گول تکیہ رکھ کر عملی طور پر ہر ایک کا بستر الگ الگ کرلیا جائے، موجودہ پُر فتن  دور میں   اس بارے میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: «مروا صبيانكم بالصلاة إذا بلغوا سبعاً، و اضربوهم عليها إذا بلغوا عشراً، و فرقوا بينهم في المضاجع»."

(كتاب الصلوات،‌‌ متى يؤمر الصبي بالصلاة، ج:1، ص:304، ط:دار التاج)

فتاوی شامی میں ہے:

"وإذا بلغ الصبي أو الصبية عشر سنين يجب التفريق بينهما بين أخيه وأخته وأمه وأبيه في المضجع، لقوله - عليه الصلاة والسلام - «‌وفرقوا ‌بينهم في المضاجع وهم أبناء عشر».

وفي الرد:

"(قوله: بين أخيه وأخته وأمه وأبيه) ... وفي البزازية: إذا بلغ الصبي عشرا لا ينام مع أمه وأخته وامرأة إلا بامرأته أو جاريته اهـ فالمراد التفريق بينهما عند النوم خوفا من الوقوع في المحذور، فإن الولد إذا بلغ عشرا عقل الجماع ولا ديانة له ترده، فربما وقع على أخته أو أمه، فإن النوم وقت راحة مهيج للشهوة وترتفع فيه الثياب عن العورة من الفريقين، فيؤدي إلى المحظور وإلى المضاجعة المحرمة، خصوصا في أبناء هذا الزمان فإنهم يعرفون الفسق أكثر من الكبار ...وكذا لا يترك الصبي ينام مع رجل أو امرأة أجنبيين خوفا من الفتنة، ولا سيما إذا كان صبيحا، فإنه وإن لم يحصل في تلك النومة شيء، فيتعلق به قلب الرجل أو المرأة، فتحصل الفتنة بعد حين، فلله در هذا الشرع الطاهر، فقد حسم مادة الفساد، ومن لم يحط في الأمور يقع في المحذور، وفي المثل: لا تسلم الجرة في كل مرة."

(كتاب الحظر والإباحة، ‌‌باب الاستبراء وغيره، ج:6، ص:382، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں