بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بیوہ اور گیارہ بیٹوں میں ترکہ کی تقسیم


سوال

میرے والد نے دو شادیاں کی ہیں، ایک میری ماں ہے، جس سے ہم چار بیٹے ہیں اورد وسری سوتیلی ماں سے سات بیٹے ہیں، اب والد کی جائیداد کی تقسیم  والد کی دو حصوں میں تقسیم ہوگی دونوں بیویوں کی نسبت سے ؟ یا گیارہ حصوں میں تقسیم ہوگی دونوں بیویوں کی اولاد کی نسبت سے؟ برائے مہربانی شریعت کی روشنی راہنمائی فرمادیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے والد کا انتقال ہو گیاہو اور سائل کا مقصد والد کے ترکہ کی شرعی تقسیم ہو تو ترکہ کی تقسیم مرحوم  کی دونوں بیواؤں اور اولاد کی نسبت سے ہوگی، اگر  والد مرحوم کے ورثاء میں یہی دوبیوائیں اور گیارہ بیٹے ہوں، مزید کوئی وارث یعنی بیٹی، والد کے والد اور والدہ میں سے کوئی نہ ہو تو مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ترکہ میں سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض ہو توایک تہائی ترکہ میں اسے نافذ کرنے کے بعد، اور اگر مرحوم نے اپنی زندگی میں کوئی جائز وصیت ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذ کرنے کے بعد بقیہ ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 176 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی دونوں بیواؤں میں سے ہرایک کو 11،11 حصے اور گیارہ بیٹوں میں سے ہرایک کو 14، 14 حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:والد۔8/ 176

بیوہبیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹا
17
11111414141414141414141414

یعنی فیصد کے اعتبار سے مرحوم کی دونوں بیواؤں میں سے ہرایک کو 6.25 فیصد اور گیارہ بیٹوں میں سے ہرایک کو 7.954  فیصد ملے گا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100760

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں