بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بیٹوں کے عقیقے کرنا


سوال

 کیا صرف بکرے قربان کر کے ہی عقیقہ کیا جا سکتا ہے یا بیل گائے میں بھی حصہ ڈالا جاسکتا ہے، جیسا کی قربانی کی جاتی ہے؟ میں اپنے دونوں بیٹوں کا عقیقہ کرنا چاہتا ہوں۔ راہ نمائی درکار ہے!

جواب

لڑکے کے عقیقے میں صاحبِ استطاعت شخص کے لیے  دو بکرے یا بڑے جانور میں دو حصے اور لڑکی کے عقیقے میں ایک بکرا یا بڑے جانور میں ایک حصہ کرنا مسنون ہے، البتہ اگر لڑکے کے عقیقہ میں دو بکرے ذبح کرنے کی گنجائش نہ ہو تو ایک بکرا ذبح کرنا بھی کافی ہوگا۔

اور عقیقہ کے لیے جانوروں میں ان شرائط کا ہونا ضرروی ہے جو شرائط قربانی کے جانوروں کے لیے ہیں، یعنی جن جانوروں کی قربانی درست ہے ان سے عقیقہ کرنابھی درست ہے۔ عقیقہ اور قربانی کے لیے جانور اور ان کی عمریں مندرجہ ذیل ہیں:

1- بکرا وغیرہ چھوٹا جانور ایک سال کی عمرکا ہو۔

2- گائے، بیل بھینس وغیرہ دوسال کی۔

3- اونٹ پانچ سال کاہونا ضروری ہے۔

اگر مذکورہ جانوروں کی عمریں متعینہ عمروں سے کم ہیں تو قربانی اورعقیقہ درست نہیں، البتہ اگربھیڑ اور دنبہ ایک سال سے کم اور چھ مہینے سے زائد کا ہو، مگر اتنا فربہ ہو کہ ایک سال کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی وعقیقہ درست ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ  اگر اپنے دو بیٹوں کا عقیقہ کرنا چاہتے ہیں تو جس چیز کے ذریعہ بھی کریں گے تو عقیقہ درست ہو گا۔ 

المستدرک  میں ہے:

" عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا، بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه".

(المستدرک علی الصحیحین للحاکم، (4/ 266) رقم الحدیث: 7595،  کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘.

(6/ 336، کتاب الأضحیة، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں