بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت کی حکمت


سوال

بیوی کی بہن سے نکاح کیوں جائز  نہیں ہے ؟آیتِ محرمہ کا تو معلوم ہے،  لیکن اس میں مصلحت کیا ہے ؟

جواب

بیوی کی بہن سمیت جن  رشتوں سے نکاح کرنے کی ممانعت ہے، یہ ممانعت نبی کریم ﷺ  کی شریعت سے پہلے بھی لوگوں میں مسلّم تھیں اور  فطرتِ سلیمہ رکھنے والے   معاشرے میں اس کو  برا سمجھا جاتا تھا۔ تاہم دین کے باغیوں اور دشمنوں نے جہاں اللہ کے دیگر احکام توڑے، وہیں نکاح میں جن عورتوں کو جمع کرنا ممنوع تھا، وہ احکام بھی توڑے اور یوں یہ سلسلۂ  بد جاری ہوا۔

دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت کی اصل وجہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، البتہ اس کی  حکمتوں  میں   سے  ایک یہ  ہے  کہ دو بہنوں میں آپس میں صلہ رحمی کا تعلق رکھنا لازم ہے، جب کہ  اس دنیا  میں عورتوں کی  فطری خلقت کے اعتبار سے سوکنوں کا آپس میں حسد  یا رشک اور شوہر کو خود سے قریب کرنے اور سوکن سے دور کرنے کا معاملہ ہوتا ہے  جس کے  نتیجے میں سوکنوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے  بغض یا میل آجاتا ہے۔ اگر یہی بغض دوبہنوں میں آجائے گا تو وہ قطع رحمی کا ارتکاب کرنے والی ہوں گی جو کہ سخت گناہ ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ نے لکھا ہے کہ سوکنوں میں اسی بغض کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کی بیٹی کے نکاح میں ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت  سے شادی کرنا ممنوع ہے،  اس لیے کہ پھر دوسری بیوی نبی کریم ﷺ  کی بیٹی اور ان کے  واسطے سے نبی کریم ﷺ کے گھرانے سے بغض میں مبتلا ہوجائے  گی اورنبی کریم ﷺ کا بغض چاہے  معاشی امور  کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو، کفر تک لے جاتا ہے! اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح میں ہوتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دوسرا نکاح کرنے سے منع فرمایا۔

حجة الله البالغة (2 / 202):

"اعلم أن تحريم المحرمات المذكورة في هذه الآيات كان أمرًا شائعًا في أهل الجاهلية مسلّمًا عندهم، لايكادون يتركونه، اللهم إلا أشياء يسيرة كانوا ابتدعوها من عند أنفسهم بغيا وعدوانا كنكاح ما نكح آباؤهم والجمع بين الأختين، وكانوا توارثوا تحريمها طبقة عن طبقة حتى صار لا يخرج من قلوبهم إلا أن تمزع وكان في تحريمها مصالح جليلة، فأبقى الله تعالى عز وجل أمر المحرمات على ما كان، وسجل عليهم فيما كانوا تهاونوا فيه."

حجة الله البالغة (2 / 204):

"ومنها الاحتراز عن قطع الرحم بين الأقارب؛ فإن الضرتين تتحاسدان، وينجر البعض إلى أقرب الناس منهما، والحسد بين الأقارب أخنع وأشنع، وقد كره جماعان من السلف ابنتي عم لذلك، فما ظنك بامرأتين أيهما فرض ذكرا حرمت عليه الأخرى كالأختين، والمرأة، وعمتها، والمرأة، وخالتها، وقد اعتبر النبي صلى الله عليه وسلم هذا الأصل في تحريم الجمع بين بنت النبي صلى الله عليه وسلم وبنت غيره؛ فإن الحسد من الضره واستئثارها من الزوج كثيرا ما ينجران إلى بغضها وبغض أهلها، وبغض النبي صلى الله عليه وسلم ولو بحسب الأمور المعاشية يفضي إلى الكفر، والأصل في هذا الأختان، ونبه النبي صلى الله عليه وسلم بقولة: " لا يجمع بين المرأة وعمتها " الحديث على وجه المسألة."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 39):

"فإن الجمع بينهن حرام؛ لإفضائه إلى قطع الرحم لوقوع التشاجر عادة بين الضرتين، والدليل على اعتباره ما ثبت في الحديث برواية الطبراني، وهو قوله: صلى الله عليه وسلم:  «فإنكم إذا فعلتم ذلك قطعتم أرحامكم» وتمامه في الفتح."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201601

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں