زید کی وفات کے وقت دو بیویاں زندہ اور زید کے نکاح میں تھیں، پہلی بیوی سے زید کے 4 بچے تھے، جس میں 3 بیٹے اور 1 بیٹی، جب کہ دوسری بیوی سے بھی 4 ہی بچے تھے، جس میں 3 بیٹیاں اور 1 بیٹا۔ زید کا انتقال 2004 میں ہوا ،جب کہ کچھ گھریلو معاملات کے باعث زید کی وراثت تقسیم نہیں کی گئی، 2017 میں زید کی پہلی بیوی کا انتقال ہو گیا، انتقال کے وقت زید کی پہلی بیوی کی ملکیت میں کوئی جائیداد نہیں تھی اور نہ ہی پہلی بیوی کے انتقال تک زید کی کوئی وراثت تقسیم کی گئی تھی جو پہلی بیوی کو منتقل ہوتی اور پھر ان کے ورثاء میں آج 2023 میں زید کے ورثاء میں زید کی دوسری بیوی، پہلی بیوی کے 4 بچے یعنی 3 بیٹے اور 1 بیٹی اور دوسری بیوی کے بھی چارو بچے یعنی 3 بیٹیاں اور 1 بیٹا ذندہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آج 2023 میں زید کی وراثت تقسیم کیسے ہوگی اور پہلی بیوی مرحومہ کا کیا معاملہ ہوگا؟
صورت مسئولہ میں زید مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوق ِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل مال سے ادا کرنے کے بعد اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ ترکہ کی ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 672 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی زندہ بیوہ کو 42 حصے ،اور مرحوم کی پہلی مرحومہ بیوی کی ہر ایک بیٹے کو110 حصے ، اور اس کی بیٹی کو 55 حصے ، اور مرحوم کی دوسری بیوی کے بیٹے کو 98 حصے اور اس کی ہر ایک بیٹی کو 49 حصے ملیں گے ۔
صورت ِ تقسیم یہ ہے :
میت۔۔۔672/96/8
بیوہ | بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||||||
6 | 6 | 14 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 |
مرحوم | 42 | 98 | 98 | 98 | 98 | 49 | 49 | 49 | 49 |
میت۔۔۔7 مافی الید6
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 1 |
12 | 12 | 12 | 6 |
فیصد کے اعتبار سے مرحوم کی زندہ بیوہ کو 6.25 فیصد اور مرحوم کی مرحومہ بیوی کے ہر ایک بیٹے کو 16.36 فیصد اور اس کی بیٹی کو 8.18 فیصد اور مرحوم کی دوسری بیوی کے بیٹے کو 14.58 فیصد اور اس کی ہر ایک بیٹی کو 7.29 فیصد ملے گا ۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144505100694
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن