1۔ میری والدہ تین سال پہلے انتقال کر گئی ہیں، والدہ کی جائیداد میں مکان اور زمین ہے، ان کے کل چھ بیٹے تھے، جس میں سے دو بیٹے والدہ سے پہلے انتقال کر چکے ہیں، باقی چار بیٹے ہیں، اس میں ایک بیٹا والدہ کے بعد انتقال کر گیاہے۔
والدہ کا انتقال تین سال پہلے ہوا:ان کے ورثاءمیں چار بیٹے اوردوبیٹیاں ہیں۔
ان کے بعد بیٹے کا انتقال ہوا :ان کے ورثاء میں بیوہ، چار بیٹیاں،تین بھائی اوردوبہنیں ہیں۔
مرحومہ والدہ کی میراث کی تقسیم کیسے ہوگی؟
2۔ کیا بیٹوں کی کمائی میں والدہ کا حصہ ہوتا ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ (جب کہ ورثاء صرف چاربیٹے اوردوبیٹیاں ہوں،شوہر اوروالدین کاانتقال پہلے ہوچکاہو) سب سے پہلے مرحومہ کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحومہ کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ، اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو کل ترکہ سے قرضہ ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرکے باقی کل منقولہ و غیر منقولہ ترکہ کو960 حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے202 حصے مرحومہ کے ہر ایک زندہ بیٹے کو ،101حصے ہرایک بیٹی کو ،مرحومہ کی بہو کو 24 حصے،اور مرحومہ کی ہر ایک پوتی کو 32 حصے ملیں گے۔
تقسیم کی صورت درجِ ذیل ہے:
مرحومہ والدہ :مسئلہ:960/10
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 2 | 1 | 1 |
فوت شدہ | 192 | 192 | 192 | 96 | 96 |
مرحوم بیٹا:مسئلہ:96/192/24 ما فی الید:1/2
بیوہ | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بھائی | بھائی | بھائی | بہن | بہن |
3 | 4 | 4 | 4 | 4 | 5 | ||||
24 | 32 | 32 | 32 | 32 | 10 | 10 | 10 | 5 | 5 |
فیصد کے اعتبار سے تقسیم یوں ہو گی کہ مرحومہ والدہ کے ہر ایک زندہ بیٹے کو21.041فیصد،ہر ایک بیٹی کو10.520فیصد،مرحومہ کی بہو کو2.5فیصداور مرحومہ کی ہر ایک پوتی کو3.333فیصد ملیں گے۔
2۔ بیٹوں کی ذاتی کمائی میں والدہ کا حق نہیں ہوتا،البتہ والدہ اگر محتاج اور غریب ہوں اور اپنی اولاد کے مال کی محتاج ہوں،اور بیٹوں کے پاس مال ہو تو ان پر والدین کا نان ونفقہ لازم ہے، نیز والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا تقاضہ یہ ہے کہ اولاد زندگی بھر حسب استطاعت خود سے والدین پر اپنا مال خرچ کر کے ان کی خدمت کی سعادت حاصل کرتی رہے۔
البحر الرائق میں ہے:
(ولابویہ واجدادہ وجداتہٖ لوفقراء) ای تجب النفقۃ لِھٰؤلاء……واطلق فی الابن ولم یقید فی الغنی مع انہٗ مقید بہ لما فی شرح الطحاوی ولایجبر الابن علٰی نفقۃ أبويه المعسرین اذاکان معسراً إلا إذا كان بهما زمانة أو بهما فقر فقط فإنهما يدخلان مع الابن ويأكلان معه ولا يفرض لهما نفقة على حدة۔"
(كتاب الطلاق،باب النفقة،ج:4،ص:349، ط:دار الكتاب الإسلامی)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح...(النفقة لأصوله)۔۔۔(الفقراء) ولو قادرين على الكسب"
"(قوله ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر."
(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص621،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602100083
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن