بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بار قرض ادا کرنے کی صورت میں قرض دار کونسی رقم کا مستحق ہوگا؟


سوال

میں نےکچھ عرصہ قبل ایک آدمی سےtrگارڈر لیےتھے،اور میں نےان سےکہاتھاکہ جب آپ کو اس کی ضرورت ہوجائیگی تو میں آپ کو trخریدکر واپس کردوں گا،کچھ  عرصہ کےبعد جب اس کو ضرورت پڑی تو میں اس  کو لیکر مارکیٹ چلاگیااور tr کا ریٹ معلوم کیاجوبیس ہزار روپےبن گئےتھے،لہٰذا میں نےوہ رقم ان کی والدہ کو دی،کیونکہ وہ خودموجود نہیں تھا،شہر میں تھا، اس معاملہ کو دوسال گزرنےکےبعد جب وراثت کی تقسیم کی بات آئی تو اس آدمی نے(جس سےمیں نےtrلیےتھےاور اس کی رقم ان کی والدہ کو دی تھی)کہا کہ میرا آپ کےذمہ trکےپیسےہیں تومیں نےان سےکہاکہ اس کےپیسےتو میں آپ کی والدہ کو دےچکاہوں،لیکن ان کی ماں  بھی مُکر گئی اور ان پیسوں کاانکار کیا،جب کہ میرےپاس ان پیسوں کا نہ کوئی تحریر موجود تھا اور نہ ہی گواہان تھے۔

چنانچہ ہم نےدوبارہtrکی قیمت معلوم کی جو 28ہزار3سو پچاس روپےبن گئی،میں نےوہ رقم ان کو ادا کردی،جس کی تحریر اور گواہان بھی موجود ہیں،لیکن میں نےساتھ میں یہ بھی کہا کہ دیکھو میں آپ کےپیسےاداکرچکاہوں،یہ پیسےآپ مجھ سےناجائز لےرہےہو۔

اب ان کی والدہ کو احساس ہواکہ میں نےان کو trکےبیس ہزار روپےدیےتھے،لہٰذا وہ مجھے اپنےپیسےواپس دینا چاہتی ہے۔

اب سوال یہ کہ میں کس رقم کا مستحق ہوں؟پہلی والی رقم کا یا دوسری دفعہ دی ہوئی رقم کا؟

جواب

صورتِ مسئولہ ميں جب سائل نےtr کی مذکورہ رقم اصل حق دار کو نہیں دی،بلکہ اس کی(قرض دہندہ کی) اجازت کےبغیر اپنی طرف سےاس کی والدہ کو دی تو اس  ادائیگی سےسائل کا ذمہ فارغ نہیں ہوا،پھربعد میں جب اس کی والدہ  مُکر گئی اوراس رقم کا انکار کیا،جس کی وجہ سےسائل نےدوبارہ مارکیٹ ریٹ معلوم کرکےاصل حقدار کو اس کی رقم ادا کردی تو یہ سائل کی طرف سے اس پر واجب الاداء قرض کا اصل حق دار کو ادا کرنا پایا گیا، بعد ازاں  اب اس کی والدہ کو احساس ہوا جس کی وجہ سے وہ وصول کی ہوئی رقم واپس کرنا چاہتی ہے توایسی صورت میں سائل صرف انہی رقم کا حقدار ہے جو وہ قرض دہندہ کی والدہ کو ادا کرچکا ہے۔

"المبسوط للسرخسي"میں ہے:

"قبض الوكيل ‌كقبض ‌الموكل".

(كتاب الوقف، 39/12، ط: دارالمعرفة بيروت)

"دررالحكام في شرح مجلة الأحكام"میں ہے:

"(الدين الصحيح) هو ما لا يسقط بغير ‌الأداء ‌أو ‌الإبراء حقيقة أو حكما. كالقرض، وثمن المبيع . . . ".

(الكتاب الثالث الكفالة، المادة 631، ط: دارالجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں