بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوبہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنے والے کی اذان واقامت کا حکم


سوال

جس شخص نے دو بہنوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھا ہو، تو کیا اس شخص کا اذان اور اقامت کہنا درست ہے؟

جواب

از رُوئے شرع دوبہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا  گناہِ کبیرہ ہے، اور ایسے فعل کا مرتکب فاسق گناہ گار ہوگا، اور فاسق شخص کی اذان واقامت دینا مکروہِ تحریمی ہے۔

ملحوظ رہے کسی بھی مسلمان کے لیے بیک وقت دو حقیقی بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا ہرگز جائز نہیں، ایک بہن کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بہن سے نکاح کرنا قطعاً حرام ہے،  قرآنِ مجید میں ہے:

"اور یہ کہ (حرام ہیں تم پر کہ ) تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو، لیکن جو  (قرآن  کا حکم آنے سے) پہلے ہوچکا۔"

(سورۃ النساء، رقم الآیۃ:23، ترجمہ:بیان القرآن)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی صراحتًا اس کی ممانعت ہے۔

اگر مذکورہ شخص نے ایک ہی عقد میں دو بہنوں سے نکاح کیا ہو تو   دونوں سے فی الفور علیحدگی لازم  ہے، اور اگر ایک بہن کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسری بہن سے الگ عقد  میں نکاح کیا ہو تو  دوسری کا نکاح فاسد ہے، اس سے علیحدگی لازم ہے، تاہم  اگر اس سے کوئی اولاد ہوگئی تو اس کا نسب  اس شخص سے ثابت ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وينبغي أن يكون المؤذن رجلًا عاقلًا صالحًا تقيًّا عالمًا بالسنة، كذا في النهاية.ويكره أذان الفاسق ولا يعاد، هكذا في الذخيرة."

(كتاب الصلوة، الباب الثانى فى الاذان، الفصل الاول فى صفة الاذان، ج:1، ص:53/54، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لا يجمع بين أختين بنكاح ولا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع، هكذا في السراج الوهاج."

(كتاب النكاح، الباب الثالث فى بيان المحرمات، القسم الرابع المحرمات بالجمع، ج:1، ص:277، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144205200537

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں