بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوبار مختلف موقعوں پر طلاق دینے کے بعد عدت کے دوران رجوع کر لینا


سوال

میری شادی ۱۹۹۶ء میں ہوئی تھی، ۲۰۰۰ء میں دبئی میں تھا اور میری بیوی پاکستان میں تھیں ، ہمارا کسی بات پر جھگڑا ہوا اور میں نے فون پر ہی ان کو ان الفاظ سے ايك طلاق دی تھی  کہ"طلاق دی ہے"  ، اس کے بعد میں پندرہ دن کے اندر پاکستان آگیاپھر  ہماری صلح ہوگئی ، اورہم دونوں ایک ساتھ رہتے رہے ، اس کے بعد ۲۰۱۶ءمیں پھر ہمارا کسی بات پر جھگڑا ہوااور بات اتنی بڑھ گئی  اور میں نے اپنی سالی کی موجودگی میں ان الفاظ سے ایک اور طلاق دی  کہ" طلاق دی ہے"، اس کے بعد میں نے اپنی ساس کو فون کیا کہ میں نے ان کو طلاق دے دی ہے ، آپ ان کو لے جائیں ، اس کے بعد وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ  آئیں اور میری بیوی کو لےکر اپنے گھرچلی گئیں ، پھر ہم لوگوں کے بڑے بیٹھے اوریہ فیصلہ ہوا کہ" یہ دونوں طلاقیں ملاکر دوہی ہوئی ہیں اور رجوع کی گنجائش ہے "،پھر ہم نے پندرہ دن کے اندر رجوع کرلیا۔ اب ۲۰۲۱ء میں میری تقریباً پندرہ بیس دن پہلے ہمارا کسی بات پر اختلاف ہوا تو وہ روٹھ کر اپنی والدہ کے گھر چلی گئی ہیں ، چند دن پہلے میرے والد اور بڑے بھائی ان کو منانےان کے والد کے گھر گئے تو میری بیوی کا کہنا ہے کہ "میں تو عدّت میں بیٹھی ہوں اور طلاق تومجھے اسی وقت ۲۰۱۶ء میں ہوگئی تھی ، اب میں عدّت پوری کررہی ہوں"اور وہ مجھ سے بات بھی نہیں کررہیں ، نہ کوئی فون یارابطہ ہے، صرف بچوں کا رابطہ ہے  وہ بھی اپنی نانی کےنمبرپر ، میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میں نے ایک ایک کرکے دوہی طلاق دی ہیں ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں میری شرعی راہ نمائی فرمائیں اوریہ جو عدّت کررہی ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

جواب

صورتٍ مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی کو پہلی مرتبہ ۲۰۰۰ء میں    او ردوسری مرتبہ ۲۰۱۶ء میں  ان الفاظ سے طلاق دی تھی کہ" طلاق دی ہے "اورپھر دونوں موقعوں پر عدّت کے دوران رجوع  کرلیا تھا تو  ایسی صورت میں سائل کا نکاح اپنی بیوی سے برقرار ہے ، تاہم آئندہ کے لیے ایک طلاق کا حق حاصل ہے،اب ۲۰۲۱ء میں سائل کی بیوی  کا  اپنے میکے جاکر بیٹھ جانا  اور یہ کہنا شرعاً درست نہیں کہ" میں تو عدّت میں بیٹھی ہوں، طلاق تو مجھے اسی وقت ۲۰۱۶ء میں ہوگئی تھی ، اب میں عدّت پوری کررہی ہوں "، سائل  کی بیوی  کو چاہیے کہ اپنے شوہر کے گھر واپس آجائے اور اپنے شوہر اوربچوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے زندگی بسرکرے۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت ."

(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کتاب الطلاق، فصل فی بیان حکم الطلاق، ج:۳،ص:۱۸۰،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100735

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں