بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وطن اصلی دوسرے وطن اصلی سےباطل ہوجاتا ہے


سوال

صورت مسئولہ یہ ہے کہ ہم پہلے خضدار کے ایک گاؤں مولہ خرزان میں رہتے تھے، جو کہ  خضدار شہر سے تقریباً150 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اور وہاں مولہ خرزان میں ہمارے گھر اور زمینیں ہیں،اور اب دس سال سے ہم مولہ خرزان میں رہنا چھوڑ دیا ہے اب خضدار شہر میں مستقل طور پر رہائش اختیار کیا ہے،اور شہر خضدار میں زمینیں خریدیں ہے،اور خضدار سٹی میں اب کاروبار بھی ہے،اور مولہ خرزان کے زمین اور گھر ہمارا وہاں موجود ہے، ابہی تک بیچے نہیں ، اور زمینوں کی غلہ بھی ہم تک پہنچتا ہے ،اور اب ہمارا وہاں مولہ خرزان میں 15 دن سے کم کے سفر پر جانا ہوتا ہے،سال میں کئی مرتبہ کیا ہم وہاں مولہ خرزان جو کہ تحصیل بھی نہیں ہے بلکہ ڈاک خانہ ہے، کیا ہم وہاں سفری  نماز ادا کریں یا حضری ؟

وضاحت مستقبل میں مولہ خرزان میں رہائش کا کوئی ارادہ نہیں ہے ،مستقل  طور پر خضدار میں رہائش اختیار کرلیا ہے۔

جواب

 واضح  رہے کہ  وطن اصلی دوسرے وطن اصلی سےباطل ہوجاتا ہے،لہذا صورت مسئولہ میں اگر سائل نے مستقل  طور پر خضدار میں رہائش اختیار کی ہے،اور مولہ خرزان  کو مستقل چھوڑ دیا ہے،اب  یہاں رہائش رکھنے کا ارادہ نہیں ہےتو اس صورت میں  مولہ خرزان میں  پندرہ دن سے کم مدت کے لئے جانے کی صورت میں قصر نماز ادا کریں، اور اگر مولہ خرزان مستقل ترک نہیں کیا بلکہ مستقبل میں خضدار چھوڑ کر دوبارہ یہاں رہائش اختیار کرنے کا ارادہ ہے ،تو ایسے صورت میں مولہ خرزان میں پوری نماز کریں گے خواہ پندرہ دن سے کم کے لئے جائے۔

درر الحكام شرح غرر الأحكام   میں ہے:

''فإذا كان لشخص وطن أصلي فإن اتخذ وطنا أصليا آخر سواء كان بينهما مدة السفر أو لا بطل الوطن الأصلي الأول حتى لو دخله لا يصير مقيما إلا بالنية.''

(کتاب الصلاۃ،باب صلاة المسافر،ج:1،ص:135،ط:دار إحياء الكتب العربية)

فتوی عا لمگیری میں ہے:

''ويبطل الوطن الأصلي بالوطن الأصلي إذا انتقل عن الأول بأهله وأما إذا لم ينتقل بأهله ولكنه استحدث أهلا ببلدة أخرى فلا يبطل وطنه الأول ويتم فيهما.''

(کتاب الصلاۃ ،الباب الخامس عشر في صلاة المسافر،ج:1،ص:142،ط:دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں