بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دو آدمیوں کا موٹر سائیکل پر سوار ہونا


سوال

گھوڑے یا موٹر سائیکل پر دو آدمیوں کا بیٹھنا جائز ہے یا نہیں؟  کیوں کہ دونوں مردوں  کے جسم کے  وہ حصے جو عورت  (ستر) ہے آپس میں ٹکراتے ہیں!

جواب

فقہاءِ کرام نے اعضاءِ مستورہ سے متعلق یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ اگر ایک آدمی دوسرے آدمی کی ران کو کپڑے کے اوپر سے چھوتا ہے (جیساکہ کسی کو متوجہ کرنے کے لیے عمومًا گھٹنے یا ران کے ابتدائی حصے کو چھوا جاتاہے) تو ایسا کرنا  ناجائز نہیں ہے، چھو سکتا ہے، اسی طرح اگر ایک آدمی کی ران دوسرے آدمی کی ران سے مس کرتی ہے تو یہ بھی ناجائز نہیں ہو گا  اور  اس کی گنجائش ہو گی، ہاں! اگر ایسا کرنے سے شہوت کا خوف ہو تو اس کو ناجائز کہا جائے گا۔

لہذا  اگر  دو آدمی ایک  وقت میں موٹر سائیکل پر سوار ہوتے ہوں اور دونوں کی رانیں آپس میں مس کرتی ہوں، جب کہ  درمیان میں کپڑا حائل ہو، (بلکہ عمومًا دو، چار کپڑے حائل ہوتے ہیں)  تو اس کی  اجازت ہو گی، بشرطیکہ شہوت کا خوف نہ ہو، اگر شہوت کا اندیشہ ہو تو یہ ناجائز  ہو گا، اس میں اس بات کا خیال رہے کہ دونوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو کہ دونوں کے اعضاء مخصوصہ آپس میں نہ                   ملتے ہوں، اگر دونوں سوار  اتنا قریب ہوں کہ ان کے اعضاءِ مخصوصہ آپس میں مل جاتے ہوں تو یہ صورت ناجائز ہو گی۔

الفتاوى الهندية (5/ 328)

"وما حل النظر إليه حل مسه ونظره وغمزه من غير حائل ولكن إنما يباح النظر إذا كان يأمن على نفسه الشهوة، فأما إذا كان يخاف على نفسه الشهوة فلا يحل له النظر، وكذلك المس إنما يباح له إذا أمن على نفسه وعليها الشهوة، وأما إذا خاف على نفسه أو عليها الشهوة فلا يحل المس له، ولا يحل أن ينظر إلى بطنها أو إلى ظهرها، ولا إلى جنبها، ولا يمس شيئا من ذلك، كذا في المحيط. وللابن أن يغمز بطن أمه وظهرها خدمة لها من وراء الثياب، كذا في القنية.

قال أبو جعفر - رحمه الله تعالى - سمعت الشيخ الإمام أبا بكر محمدا - رحمه الله تعالى - يقول: لا بأس بأن يغمز الرجل الرجل إلى الساق ويكره أن يغمز الفخذ ويمسه وراء الثوب ويقول: يغمز الرجل رجل والديه، ولا يغمز فخذ والديه والفقيه أبو جعفر - رحمه الله تعالى - يبيح أن يغمز الفخذ ويمسها وراء الثوب وغيرها، كذا في الغرائب."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں