بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو آدمیوں کی جماعت کی نماز میں مقتدی کا پچھلی صف میں کھڑے ہونے کا حکم


سوال

اگر دو لوگوں نے خلاف ترتیب جماعت قائم کردی تو کیا نماز فاسد ہو جائے گی؟ یعنی اگر امام آگے کھڑا ہے اور ایک ہی مقتدی ہے اور وہ پچھلی صف میں ہے تو کیا نماز فاسد ہو جائے گی؟

جواب

دو آدمیوں کے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں (یعنی جب امام کے ساتھ صرف ایک مقتدی  ہو) مقتدی کو امام کے دائیں طرف تھوڑا (مثلًا ایک قدم) پیچھے کھڑا ہونا چاہیے، مقتدی کے قدم امام سے آگے نہ بڑھنے پائیں۔ اگر ایک مقتدی امام کے ساتھ ایک قدم پیچھے کھڑے ہونے کے بجائے پچھلی صف میں کھڑا ہوجائے تو اس سے نماز تو فاسد نہیں ہوگی، البتہ اس مقتدی کا اس طرح اکیلے ہونے کی صورت میں پچھلی صف میں کھڑا ہونا سنّت کے خلاف ہونے کی وجہ  سے  مکروہ ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و يقف الواحد) و لو صبيًّا، أما الواحدة فتتأخر (محاذيًا) أي مساويًا (ليمين إمامه) على المذهب، و لا عبرة بالرأس بل بالقدم، فلو صغيرًا فالأصحّ ما لم يتقدّم أكثر قدم المؤتم لاتفسد، فلو وقف عن يساره كره (اتفاقًا و كذا) يكره (خلفه على الأصح) لمخالفة السنة.

(قوله: على المذهب) خلافًا لما مر عن محمد من أنه يجعل أصابعه عند عقب الإمام بحر، و يأمره الإمام بذلك: أي بالوقوف عن يمينه و لو بعد الشروع أشار إليه بيده؛ لحديث «ابن عباس أنه قام عن يسار النبي صلى الله عليه وسلم فأقامه عن يمينه» سراج (قوله: بل بالقدم) فلو حاذاه بالقدم ووقع سجوده مقدما عليه لكون المقتدي أطول من إمامه لا يضر؛ ومعنى المحاذاة بالقدم المحاذاة بعقبه، فلا يضر تقدم أصابع المقتدي على الإمام حيث حاذاه بالعقب ما لم يفحش التفاوت بين القدمين، حتى لو فحش بحيث تقدم أكثر قدم المقتدي لعظم قدمه لايصح كما أشار إليه بقوله ما لم يتقدم إلخ. قال في البحر: وأشار المصنف إلى أن العبرة إنما هو للقدم لا للرأس، فلو كان الإمام أقصر من المقتدي يقع رأس المقتدي قدام الإمام يجوز بعد أن يكون محاذيًا بقدمه أو متأخرًا قليلًا، و كذا في محاذاة المرأة كما سيأتي، و إن تفاوتت الأقدام صغرا وكبرا فالعبرة للساق و الكعب و الأصح ما لم يتقدم أكثر قدم المقتدي لا تفسد صلاته كما في المجتبى انتهى، فما ذكره الشارح ليس مخالفًا لما تقدم كما توهم رحمتي فافهم ... (قوله: كره اتفاقًا) الظاهر أن الكراهة تنزيهية لتعليلها في الهداية و غيرها بمخالفة السنة، و لقوله في الكافي: جاز وأساء، و كذا نقله الزيلعي عن محمد، لكن قدمنا في أول بحث سنن الصلاة اختلاف عبارتهم في أن الإساءة دون الكراهة أو أفحش منها، و وفقنا بينها بأنها دون كراهة التحريم، و أفحش من كراهة التنزيه، فراجعه."

(كتاب الصلاة، باب الامامة،1/ 566، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307200006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں