بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو آدمی کی نماز میں کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

دو آدمیوں نے جماعت کی  بعد میں مقتدی نے کہا میرا وضو نہیں تھا اب امام کی نماز کا کیا حکم ہے اور اگر دو آدمیوں کی نماز میں مقتدی کا وضو ٹوٹ جائے تو اکیلا امام نماز کس طرح پڑھے گا یا امام کا وضو ٹوٹ جائے تو اکیلے مقتدی کی نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

دو آدمیوں نے جماعت کی، بعد میں مقتدی کہے کہ میرا وضو نہیں تھا تو اس صورت میں امام کی نماز ہو جائے گی ؛ کیونکہ امام کی نماز کے صحیح ہونے کا دارومدار مقتدی کی نماز کے صحیح ہونے پر نہیں ہے۔

2۔ دو آدمیوں کی نماز میں مقتدی کا وضو ٹوٹ جائے تو امام تو نماز جاری رکھے گا، البتہ مقتدی جا کر وضو کرے گا اور واپس آکر بناء کرے گا۔ 3۔ دو آدمیوں کی نماز میں امام کا وضو ٹوٹ جائے تو مقتدی خود بخود اس کا نائب بن کر نماز کو وہیں سے آگے جاری رکھے گا اور یہی نائب نماز مکمل کرے گا، البتہ سابقہ امام جا کر وضو کرے گا اور واپس آکر نائب امام کے پیچھے نماز کو پوری کرے گا بناء کرتے ہوئے۔ نوٹ: بناء سے مراد یہ ہے کہ جس رکن میں نمازی(امام ہویا مقتدی ہو یا منفرد ہو) کا وضو ٹوٹ گیا تھا ، وضو کرنے کے بعد اسی رکن سے نماز کو جاری رکھے گا، مثال کے طور پر اگر نمازی منفرد ہو اور پہلی رکعت کے رکوع میں وضو ٹوٹ گیا تھا تو جا کر وضو کرے اور واپس آکر رکوع سے ہی نماز کو جاری رکھے اور مکمل کرے، اور اگر نمازی مقتدی ہو اور پہلی رکعت کے رکوع میں اس کا وضو ٹوٹ گیا تھا تو جاکر وضو کرے اور واپس آکر رکوع سے نماز کو جاری رکھے گا اور یہ اس بات کا خیال رکھے کہ اب امام کو ن سی رکعت میں ہے، اگر امام دوسری رکعت کے تشہد میں ہے تو یہ پہلے پہلی رکعت مکمل کر ے پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گا اور قراءت نہیں کر ے گا بلکہ خاموش کھڑا رہے گا پھر رکوع اور سجدہ کر کے اما م کے ساتھ شریک ہو جائے گا،اور اگر نمازی امام ہو تو پہلا کام یہ کرے کہ کسی کو اپنا نائب بنا دے جاتے ہوئے، اشارے سے یا کسی کو پکڑ کر اپنی جگہ کھڑا کر دے ، پھر جا کر وضو کرے گا اور پھر یہ بھی بناء کرے گا عام مقتدی کی طرح۔بناء( جس رکن میں عذر لاحق ہو وہیں سے نماز کو جاری رکھناعذر زائل ہونے کے بعد) کے لیے بناء کی شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، اگر یہ شرائط نہ پائی گئیں تو پھر نمازی نئے سرےسے نماز پڑھے گا بناء نہیں کرے گا۔ 

بناء  کی شرائط درج ذیل ہیں:

1۔ وضو ٹوٹ گیا ہو، اپنے اختیار سے نہ توڑا ہو۔

2۔ وضو کے ٹوٹنےمیں کسی انسانی عمل کا دخل نہ ہو ، جیساکہ: کسی انسان کی وجہ سے پتھر لگا اور خون نکلنے کی وجہ سے وضو ٹوٹ گیا۔

3۔ حدثِ اصغر لاحق ہوا ہو( وضو ٹوٹ گیا ہو)، حدثِ اکبر نہیں (غسل واجب نہ ہوا ہو)۔ 4۔ قہقہ لگانے یا بے ہوشی طاری ہونے کی وجہ سے وضو نہ ٹوٹا ہو۔

5۔ کوئی رکن بے وضو یا چل کر ادا نہ کیا ہو۔

6۔ نماز کے منافی کوئی عمل نہ کیا ہو۔

7۔ وضو کے لیے جاتے ہوئے بھی اور وضو کر کے واپس آتے ہوئے بھی تین دفعہ سبحان اللہ کہنے کے بقدر تاخیر نہ کرے بغیر کسی عذر کے۔

8۔ نمازی کا سابقہ حدث ظاہر نہ ہوا ہو، جیساکہ مسح کی مدت ختم ہو گئی ۔

9۔ اگر نمازی صاحبِ ترتیب ہو تو اسے فوت شدہ نماز یاد نہ آئی ہو۔

10۔ اگر نمازی مقتدی ہو یا امام ہو تو امام کے ساتھ صفوں میں آکر بناء کرے گا، صفوں سے ہٹ کر بناء نہیں کر سکتا، اگر نمازی منفرد ہو تو کہیں بھی بناء کر سکتا ہے۔

11۔ اگر امام کا وضو ٹوٹ گیا ہو تو وہ کسی ایسے کو اپنا نائب بنائے گا جس میں امامت کی اہلیت ہو۔

فتح باب العنایہ میں ہے:

"و إنما يكون ضامنًا إذا تضمنت صلاته ‌صلاة ‌المقتدي، لتصح بصحتها، و تفسد بفسادها."

(كتاب الصلاة، فصل في صلاة الجماعة، 288/1، ط: دار الأرقم)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(فصل في الاستخلاف) في كل موضع جاز له البناء فللإمام أن يستخلف و ما لايصح له معه البناء فلا استخلاف فيه و كل من يصلح إمامًا للإمام الذي سبقه الحدث في الابتداء يصلح خليفة له و من لايصلح إمامًا له في الابتداء لايصلح خليفةً له، كذا في المحيط. و صورة الاستخلاف أن يتأخر محدودبًا واضعًا يده على أنفه يوهم أنه قد رعف و يقدم من الصف الذي يليه و لايستخلف بالكلام بل بالإشارة و له أن يستخلف ما لم يجاوز الصفوف في الصحراء و في المسجد ما لم يخرج عنه، كذا في التبيين."

(كتاب الصلاة، الباب السادس في الحدث في الصلاة، فصل في الاستخلاف، 95/1، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"اعلم أن لجواز البناء ثلاثة عشر شرطًا: كون الحدث سماويًا من بدنه، غير موجب لغسل، و لا نادر وجود و لم يؤد ركنًا مع حدث أو مشى، و لم يفعل منافيًا أو فعلًا له منه بد، و لم يتراخ بلا عذر كزحمة، و لم يظهر حدثه السابق كمضي مدة مسحه، و لم يتذكر فائتة و هو ذو ترتيب و لم يتم المؤتم في غير مكانه، و لم يستخلف الإمام غير صالح لها ... و لما كان الاستخلاف مشروطًا بكون الحدث غير مانع للبناء ذكر الشارح شروط البناء ... (قوله: كون الحدث سماويًا) هو ما لا اختيار للعبد فيه و لا في سببه ... (قوله: غير صالح لها) كصبي و امرأة و أمي، فإذا استخلف أحدهم فسدت صلاته و صلاة القوم لأنه عمل كثير ليس من أعمال الصلاة."

(كتاب الصلاة، باب الاستخلاف،599/1-600، ط: سعيد)

فقط، والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100887

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں