بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو آدمیوں میں سے ہر ایک کا ایک دوسرے کا داماد اور سسر بننا


سوال

کیا دو آدمی ایک دوسرے کے داماد اور سسر بن سکتے ہیں  ؟ مثلاً:زید کی دو بیویاں ہیں ، ایک بیوی مر گئی، اس سے ایک بیٹی زینب ہے،اورعمر کی دو بیویاں ہیں، ایک بیوی سے ایک بیٹی  عائشہ ہے،اب زید نے اپنی بیٹی زینب عمر کے نکاح میں دی اور عمر نے اپنی بیٹی عائشہ کو زید کے نکاح میں دیا، تو کیا یہ شریعت میں صحیح ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں  اگر زید اور عمر میں سے ہر ایک اپنی بیٹی کا نکاح دوسرے سے بغیر کسی شرط کے کرے ،اور ہر ایک کا مستقل طور پر مہر طے کیا جائے ،تو ایسی صورت میں یہ نکاح درست ہے ،اور شرعاً اس کی ممانعت نہیں ہے۔

أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

"قوله تعالى: {وأحل لكم ما وراء ذلكم} . روي عن عبيدة السلماني والسدي: "أحل لكم ما دون الخمس أن تبتغوا بأموالكم على وجه النكاح". وقال عطاء: "أحل لكم ما وراء ذوات المحارم من أقاربكم". وقال قتادة: {ما وراء ذلكم} : "ما ملكت أيمانكم". وقيل: "ما وراء ذوات المحارم وما وراء الزيادة على الأربع أن تبتغوا بأموالكم نكاحا أو ملك يمين" قال أبو بكر: هو عام فيما عدا المحرمات في الآية وفي سنة النبي صلى الله عليه وسلم".

(سورہ آل عمران، ج:2، ص:175، ط: دارالکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و وجب مهر المثل في الشغار) هو أن يزوجه بنته على أن يزوجه الآخر بنته أو أخته مثلا معاوضة بالعقدين وهو منهي عنه لخلوه عن المهر، فأوجبنا فيه مهر المثل فلم يبق شغارًا.

"(قوله: في الشغار) بكسر الشين مصدر شاغر اهـ ح (قوله: هو أن يزوجه إلخ) قال في النهر: وهو أن يشاغر الرجل: أي يزوجه حريمته على أن يزوجه الآخر حريمته ولا مهر إلا هذا، كذا في المغرب: أي على أن يكون بضع كل صداقًا عن الآخر، وهذا المقيد لا بد منه في مسمى الشغار، حتى لو لم يقل ذلك ولا معناه بل قال: زوجتك بنتي على أن تزوجني بنتك، فقبل أو على أن يكون بضع بنتي صداقًا لبنتك فلم يقبل الآخر بل زوجه بنته ولم يجعلها صداقًا لم يكن شغارًا بل نكاحًا صحيحًا اتفاقًا، وإن وجب مهر المثل في الكل."

(كتاب النكاح، مطلب نكاح الشغار، ج:3، ص:105، ط:سعيد)

واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100833

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں