بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈی این اے (DNA) ٹیسٹ کا لعان کے قائم مقام ہونے کا حکم


سوال

 کیا( DNA) ٹیسٹ لعان کے قائم مقام ہے یا نہیں،  إذا نفى الرجل الولد منها؟

جواب

 از رُوئے شرع لعان ایسی چار شہادتوں کا نام ہے جو قسموں کے ساتھ مؤکد ہوتی ہے،یعنی مرد اور عورت میں سے ہر ایک سے چار چار مرتبہ خدا کو گواہ بناکر قسم لیتے ہیں، اور یہ شوہر کے حق میں جھوٹی تہمت اور بیوی کے حق میں بدکاری کی حد (شرعی سزا) کے قائم مقام ہے، جب میاں بیوی سےشرعی طریقے سے خدا کو گواہ بناکر قسم لیں گے تو شوہر سے حدقذف اور بیوی سے حدِ زنا ساقط ہوجاتی  ہے، لہذا جب شرعی طور پرلعان شہادتوں کا نام ہے تو  محض ڈی این اے (DNA) ٹیسٹ  پر  شرعی حدود(حدِزنا/حدِ قذف) کے نفاذ کےفیصلہ کا مدار نہیں رکھا جاسکتا،مزید یہ کہ مذکورہ ٹیسٹ  میں تلبیس اور تبدیلی کی کافی گنجائش ہونے کی وجہ سے اس میں شکوک و شبہات  رہتے ہیں  اور حدود کی بنیاد کامل  یقین پر ہونے کی وجہ سے معمولی شبہات سے حدود ختم ہوجاتے ہیں، جیسے کہ شریعتِ مطہرہ نے  اسی طرح کے شبہ (یعنی تبدیلی اور تلبیس وغیرہ)  کی بنیاد پر  تحریری شہادت کو بھی معتبر اور نافذ العمل نہیں مانا، کیوں کہ اس میں بہرحال خط کی تبدیلی اور نقل وغیرہ کے اشتباہ کا خطرہ موجود ہے، لہذا اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے، یا بچے کی نفی کرے تو بیوی کا خدا کو گواہ بناکر قسمیں کھانے سے حدزنا ساقط ہو جائے گی،خدا کو گواہ بناکر قسم کھائے بغیرمحض ڈی این اے ٹیسٹ کی بنیاد پرتہمت ثابت نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی مذکورہ ٹیسٹ کی بنا  پر حدِ زنا جاری ہوگی، تاہم اگر  یہ  عدالت کے سامنے پیش کی جائے تو عدالت ملزمہ سے تفتیش اور کیس کے جائزے  میں معاونت کا کام لے سکتی ہے،  لیکن جب تک ملزمہ اعترافِ  جرم نہ  کرے،  اور  اعتراف بھی شرعی تقاضے کے مطابق چار مرتبہ صراحتاً اعترافِ  زنا  نہ   کرے، عدالت شرعی حد نافذ نہیں کر سکتی ۔

قرآنِ مجید میں ہے:

"وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلاَّ أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ (6) وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ (7) وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ (8) وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ "(9)

ترجمہ: ’’اور جو لوگ اپنی (منکوحہ) بیبیوں کو (زنا کی) تہمت لگائيں اور ان کے پاس بجز اپنے (ہی دعوٰے کے) اور کوئی گواہ نہ ہوں (جن کا عدد میں چار ہونا چاہیے) تو ان کی شہادت (جو کہ دافع حبس یا حد قذف ہو) یہی ہے کہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ بیشک میں سچا ہوں۔ اور پانچویں بار یہ کہے کہ مجھ پر خدا کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں۔  اور (اس کے بعد) اس عورت سے سزا (حبس یا حد زنا) اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار بار قسم کھا کر کہے بیشک یہ مرد جھوٹا ہے۔ اور پانچویں بار یہ کہے کہ مجھ پر خدا کا عذاب ہو اگر یہ سچا ہو۔‘‘

(سورۃالنور، رقم الآیۃ:6/ 7/ 8/ 9، ترجمہ:بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ادرءوا الحدود عن المسلمين ما استطعتم، فإن كان له مخرج فخلوا سبيله، فإن الإمام أن يخطئ في العفو خير من أن يخطئ في العقوبة»."

(سنن الترمذی، أبواب الحدود، باب ما جاء في درء الحدود، رقم الحدیث:1424، ج:3، ص:85، ط:دارالغرب الإسلامی)

ترجمہ:’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہاں تک ہوسکے مسلمانوں سے حدود کو دور کرو۔ اگر اس کے لیے کوئی راستہ ہو تو اس کا راستہ چھوڑ دو امام کا غلطی سے معاف کردینا غلطی سے سزا دینے سے بہتر ہے۔‘‘

فتاوی شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"وشرعا (شهادات) أربعة كشهود الزنا (مؤكدات بالأيمان مقرونة شهادته) باللعن وشهادتها بالغضب لأنهن يكثرن اللعن، فكان الغضب أردع لها (قائمة) شهاداته (مقام حد القذف في حقه و) شهاداتها (مقام حد الزنا في حقها)."

(کتاب الطلاق، باب اللعان، ج:3، ص:482، ط:ایج ایم سعید)

شرح المجلة  للمرحوم سلیم رستم باز میں ہے:

"القرينة القاطعة هي الأمارة البالغة حد اليقين."

(الکتاب الخامس عشر في حق البینات والتحلیف، الفصل الثانی في بیان القرینة القاطعة، ج:2، ص:844، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100894

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں