کیا انسانوں کی جینیات DNA تبدیل کرنا اسلام میں جائز ہے؟
سوال کی وضاحت کے لیے عرض ہے، در اصل DNA ہر جاندار کے چھوٹے سے چھوٹے خلیہ کے اندر لکھی گئی معلومات ہیں ، جس میں مندرجہ ذیل تمام تفصیلات ہوتی ہیں:
اس جاندار کی رنگت، اس کے بالوں کا رنگ ، اس کا قد، بیماری کی معلومات، صحت اور جسامت، دماغی صلاحیت ، وغیرہ ۔
مغربی ممالک میں سائنس دان DNA کو پڑھنے اور اس کو تبدیل کرنے کے قابل ہو چکے ہیں، اس تبدیلی کے مقاصد یہ ہیں؛
1۔کسی بیماری یا مستقل معذوری کو ختم کرنا ،جیسے اندھا پن۔
2۔ بڑھاپے کے عمل کو روکنا یا کم کرنا۔
3۔ دماغی یا جسمانی صلاحیت کو بڑھانا ۔
4۔ نئے پیدا ہونے والے بچے کی رنگت، قد، آنکھوں کے رنگ کو اپنی مرضی سے منتخب کرنا وغیرہ۔
امید ہے میں نے اپنا سوال صحیح سے بیان کر دیا ، اس بارے میں علماء کی رائے وضاحت کے ساتھ درکار ہے۔
واضح رہے کہ اگر ڈی این اے(DNA) میں تبدیلی کا مقصد کسی بیماری یا عیب کو دور کرنا ہو، تو ضرورت کی بناء پر اس کی گنجائش ہوگی،تاہم اگر اس کے علاوہ بغیر کسی شرعی عذر کے ڈی این اے میں تبدیلی کی جائے جیسے بڑھاپے کے عمل کو روکنے یا کم کرنے کے لیے، دماغی یا جسمانی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے یا نومولود بچے کی رنگت، قد، آنکھوں کے رنگ کو اپنی مرضی سے منتخب کرنے کے لیے، تو یہ تغییر لخلق اللہ کے حکم میں ہونے کی وجہ سے ناجائز اور شرعاً ممنوع ہے۔
تفسيرِ مظہری میں ہے:
"وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ عن وجهه صورة أو صفة ويندرج فيه فقوعين الحامى وخصاء العبيد والوشيم والوشير والمثلة."
(ج:2، ص:239،ط:رشیدیة)
تفسیر ِقرطبی میں ہے:
"وقالت طائفة: الإشارة بالتغيير إلي الوشم وما جري مجراه من التصنع للحسن، قاله إبن مسعود والحسن."
(ج؛7، ص:142،ط:مؤسسة الرسالة )
فتاوی شامی میں ہے:
"الضرورات تبيح المحظورات."
(كتاب الطلاق، باب العدت، فصل في الحداد، ج:3، ص:532، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501101497
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن