بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دکھاوے کے طور پر غریبوں کی مدد کرنے والے کا حکم


سوال

دکھاوا کرنے کے  لیے غریبوں پرمال خرچ کرنے سے کیا آدمی کافر ہوجاتا ہے؟

جواب

واضح رہے ازرُوئے شرع  کفر کہتے ہیں جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے ان میں سے کسی ایک بات کو بھی نہ ماننا یا انکار کرنا،مثلاً: کوئی شخص خداتعالیٰ کو نہ مانے یا خدا تعالیٰ کی صفات کا انکار کرے یا دو تین خدا مانے یا فرشتوں کا انکار کرے یا خداتعالیٰ کی کتابوں میں سے کسی کتاب کا انکار کرے یا کسی پیغمبر کو نہ مانے یا تقدیر سے منکر ہو یا قیامت کے دن کو نہ مانے یا خداتعالیٰ کے قطعی احکام میں سے کسی حکم کا انکار کرے یا رسولُ اللہ ﷺکی دی ہوئی کسی خبر کو جھوٹا سمجھے، یا جو کام فی نفسہ حرام ہو اس کو  حلال سمجھنا  یا حلال کو حرام سمجھنا بھی کفر کہلاتاہے۔

بصورتِ مسئولہ دکھلاوے وریاء کاری کے  لیے عبادت کرنا  عبادت کو ضائع کرنا ہے،  جیسے کہ قرآن مجید میں ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَاتُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا  ۭ لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا  ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ   

 ترجمہ: اے ایمان والو تم احسان جتلاکر یا ایذا پہنچاکر اپنی خیرات کو برباد مت کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال خرچ کرتا ہے (محض) لوگوں کے دکھلانے کی غرض سے اور ایمان نہیں رکھتا اللہ پر اور یوم قیامت پر سو اس شخص کی حالت ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر جس پر کچھ مٹی (آگئی) ہو پھر اس پر زور کی بارش پڑجاوے سو اس کو بالکل صاف کردے ایسے لوگوں کو اپنی کمائی ذرا بھی ہاتھ نہ لگے گی۔ اور اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو (جنت کا) رستہ نہ بتلاویں گے۔

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:264، ترجمہ:بیان القرآن) 

اور حدیث شریف میں ریاکاری کو شرک اصغر کہا گیا ہے، جیسے کہ مروی ہے:

"عن محمود بن لبيد، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر " قالوا: وما الشرك الأصغر يا رسول الله؟ قال: " الرياء، يقول الله عز وجل لهم يوم القيامة: إذا جزي الناس بأعمالهم: اذهبوا إلى الذين كنتم تراءون في الدنيا فانظروا هل تجدون عندهم جزاء "

ترجمہ:محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: مجھے تم پر سب سے زیادہ شرک اصغر ریا  یعنی دکھاوے میں مبتلا  ہونے کا خوف ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کچھ لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا دیتے وقت ارشاد فرمائے گا کہ ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کے  لیے دنیا میں تم دکھاوا کرتے تھے اور دیکھو کہ کیا تم ان کے پاس کو ئی جزا پاتے ہو؟

(مسند احمد بن حنبل، حدیث لبید بن محمود، رقم الحدیث:23630، ج:39، ص:39، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

لہذا عبادات میں دکھاوا کرناحرام اور گناہ کبیرہ ہے، تاہم اس سے کوئی مسلمان کافر نہیں ہوتا، البتہ اگر کوئی شخص مذکورہ گناہ کبیرہ کو حلال کام سمجھ کر کرے تو یہ کفر کا باعث ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والكفر لغة: الستر. وشرعا: تكذيبه صلى الله عليه وسلم في شيء مما جاء به من الدين ضرورة وألفاظه تعرف في الفتاوى،

[تنبيه] في البحر والأصل أن من اعتقد الحرام حلالا فإن كان حراما لغيره كمال الغير لا يكفر وإن كان لعينه فإن كان دليله قطعيا كفر، وإلا فلا وقيل التفصيل في العالم أما الجاهل فلا يفرق بين الحرام لعينه ولغيره وإنما الفرق في حقه أن ما كان قطعيا كفر به وإلا فلا فيكفر إذا قال الخمر ليس بحرام وتمامه فيه."

(باب المرتد، ج:4، ص:223، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144209202223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں