بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان کو صرف اپنے بیٹے کے نام کرنےسے کیا وہ اس کا مالک بنے گا؟


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال 6ماہ قبل ہواہے،اور والدہ کا انتقال اس سے بھی  پہلے چار سال قبل ہوچکاہے ، میرے والد صاحب کی ملکیت میں ایک مکان  تھا ،جو وفات سے چند ماہ قبل وہ سیل کرچکے تھے اور ساری رقم بینک میں موجو دہے ،ورثاء میں میرے علاوہ چار بہنیں ہیں ، میرے والدصاحب نے 16 سال قبل ایک دکان مجھے ہبہ کی تھی اور قانونی طور پر بھی میرے نام کردی تھی 2006ء میں ،کاغذی  کاروائی بھی ہوچکی تھی اور کاغذات بھی میرے پاس موجود ہیں لیکن جب تک والد زندہ تھے تو وہ مذکورہ دکان کا  کرایہ وصول کرتےتھے اور اب والدکی وفات کے بعد میں وصول کررہاہوں ،سوال یہ ہے کہ  مکان کی فروخت  کی ہوئی رقم کے ساتھ دکان بھی وارثین میں تقسیم کی جائے گی یا نہیں ؟ میں اکیلاایک بیٹا ہوں والدکا اور میری چار بہنیں ہیں ،کیابہنوں کا دکان میں شرعی طور پر  حق  بنتا ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کسی بھی چیز کو ہبہ (گفٹ) کرنے کے لیے ضروری ہے  کہ واہِب (ہبہ کرنے والا) موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے)  کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل  قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے۔ 

صورت مسئولہ میں سائل کے والد نے اپنی ملکیتی مذکورہ دکان سائل کے صرف نام کی تھی ،سائل کو مالکانہ قبضہ اور تصرف نہیں دیاتھا بلکہ دکان کا ماہانہ کرایہ بھی والد وصول کرتےتھے تو ایسی صورت میں سائل کے حق میں ہبہ( گفٹ) درست اور مکمل نہیں ہوا ؛لہذا   مذکورہ دکان  بدستور  والد ہی کے ملکیت میں رہی،اوروالد کے انتقال کے بعد مذکورہ دکان والدکا ترکہ شمارہوگا،اور تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا ۔

مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کاشرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کاخرچہ نکالنے کے بعد ،اوراگر مرحوم کے ذمہ کوئی قر ض ہوتو اسے کل مال سے ادا  کرنے کے بعد،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی مال کے ایک تہائی مال سے نافذ کرنے کے بعد ،باقی کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کو 6حصوں میں تقسیم کرکے ،2 حصے مرحوم کے بیٹے کو،اور ایک حصہ مرحوم کی ہرایک بیٹی کو ملے گا ۔

صورت تقسیم یہ ہے: 

میت:( سائل کا والد) مسئلہ:6

بیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
21111

یعنی فیصد کے اعتبار سے 100 میں سے 33.333فیصد مرحوم کے بیٹے کو ،16.666فیصد مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

’’لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية‘‘.

 (  الباب الثاني فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، ج:4،ص: 378،ط: رشیدیه) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100166

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں