بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دیت کا مسئلہ


سوال

میرے بھائی پر قاتلانہ حملہ ہوا ، اللہ کے کرم سے بچ گئے ، البتہ دو گولیاں بھائی کولگیں، جو کہ سینے اور پسلیوں میں گھس کر پسلیوں کے نیچے سے نکلیں، بھائی معذور نہیں ہوئے ہیں، نہ ہڈی ٹوٹی ہے۔سوال یہ ہے شرعاکتنی دیت لازم ہے ؟ہم اور فریق ثانی صلح کرنا چاہ رہے ہیں۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اس حملہ آور کے فریق والے اس حملہ آور کی ضمانت لے رہے ہیں کہ وہ آپ کے بھائی کو کچھ نہیں کہیں گے اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آجائے تو کیا جنہوں نے ضمانت لی ہے ہم اس سے پھر قصاص لے سکتے ہیں یا نہیں یا پھر ہم ان کے ساتھ شرعا کس حد تک آزاد ہوں گے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب کہ گولی سے کسی قسم کی معذوری نہیں ہوئی  اورزخم ٹھیک  ہوگیا یا پھر زخم بھر گیا یا تو اس صورت میں حملہ آور پر شرعاً کوئی دیت لازم نہیں ہے ۔ نیز صلح  کے دوران اگر دونوں فریقین کسی مالیت پر راضی ہو جائیں  جیسا کہ  ہسپتال کے تمام اخراجات وغیرہ  پر یا کسی اور رقم پر تو اس صورت  میں وہ بدل ادا کرنا فریق ثانی  کے لیے لازم ہے۔نیز جن لوگوں نے حملہ آور کی ضمانت لی ہے کہ  وہ سائل کے بھائی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گا، اگر بالفرض حملہ آور دوبارہ سے تکلیف پہنچائے تو پھرقصاص اسی حملہ آور سے لیا جا سکتا ہے جن لوگوں نے ضمانت لی ہے ان سے قصاص  نہیں لیا جا سکتا۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

"وإن كسر فخذه وبرأت واستقامت فلا شيء عليه في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، وعليه في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - حكومة عدل وذكر أبو سليمان عن محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الحج قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -: من كسر عظما من إنسان يدا، أو رجلا أو غير ذلك وبرأ، أو عاد كهيئته فليس فيه عقل، فإن كان نقص، أو عثم ففيه من عقله بحساب ما نقص عثما كذا في المحيط."

( کتاب الجنایات 6/ 27 ط: کوئٹه)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں