بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دیت کی مقدار کیا ہے؟


سوال

میرے 2 بچے ایک بیٹا اور  ایک بیٹی 12 جنوری 2023 بروز جمعرات صبح مدرسہ جاتے ہوئے روڈ ایکسیڈنٹ میں شہید ہو گئے ہیں۔

جن لوگوں نے ایکسیڈنٹ کیا ہے، ان سے دیت وصول کر کے معاملہ نمٹانا ہے ۔

آپ سے گزارش ہے کہ شرعی دیت کا تعین فرما  کر ہماری مدد فرمائیں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں  دیت اگر  سونے کے اعتبار سے وصول کی جائے،   تو اس کی مقدار ایک ہزار (1000) دینار یعنی 375 تولہ سونا یعنی جدید پیمانے کے اعتبار  سے 4 کلو 374 گرام سونا یا اس کی قیمت بنتی ہے، اور اگر چاندی کے اعتبار سے وصول کی جائے تو اس کی مقدار  دس ہزار (10000) درہم یعنی 2625 تولہ چاندی یعنی جدید پیمانے کے اعتبار سے 30 کلو 618 گرام چاندی یا اس کی قیمت بنتی ہے۔ اگر یہ ایک ساتھ ادا کردیں بہتر، ورنہ تین سال کی مدت میں وصول کی جائے گی۔

نیز  صورت مسئولہ میں جاں بحق ہونے والے افراد چونکہ دو ہیں، لہذا دو دیت لازم ہیں۔

فتح القدير للكمال ابن الهماممیں ہے:

"(قال:ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ)، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه وضمان المال في ماله (وإن كان معه سائق فالضمان عليهما) لأن قائد الواحد قائد للكل، وكذا سائقه لاتصال الأزمة، وهذا إذا كان السائق في جانب من الإبل، أما إذا كان توسطها وأخذ بزمام واحد يضمن ما عطب بما هو خلفه، ويضمنان ما تلف بما بين يديه لأن القائد لا يقود ما خلف السائق لانفصام الزمام، والسائق يسوق ما يكون قدامه".

(كتاب الديات، باب جناية البهيمة والجناية عليها، ١٠ / ٣٣٠، ط: دار الفكر)

تکملة فتح الملهممیں ہے :

"ثم لم یذکر الفقهاء حکم السیارة لعدم وجودها في عصرهم. والظاهر أن سائق السیارة ضامن لما أتلفته في الطریق ، سواء أتلفته من القدام أو من الخلف. و وجه الفرق بینها و بین الدابة علی قول الحنفیة أن الدابة متحرکة بإرادتها، فلاتنسب نفحتها إلی راکبها، بخلاف السیارة، فإنها لاتتحرك بإرادتها ، فتنسب جمیع حرکاتها إلی سائقها، فیضمن جمیع ذلك، والله سبحانه و تعالیٰ أعلم".

( باب جرح العجماء و المعدن و البئر جبار، ٢ / ٥٢٣، ط: مكتبة دار العلوم كراتشي)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"الدية في الشرع اسم للمال الذي هو بدل للنفس لا تسمية للمفعول بالمصدر، لأنه من المنقولات الشرعية. والأرش اسم للواجب فيما دون النفس (دية شبه العمد مائة من الإبل أرباعا من بنت مخاض وبنت لبون وحقة إلى جذعة) بإدخال الغاية (وهي) الدية (المغلظة لا غير و) الدية (في الخطإ أخماس منها ومن ابن مخاض أو ألف دينار من الذهب أو عشرة آلاف درهم من الورق) وقال الشافعي: اثنا عشر ألفا وقالا منها ومن البقر مائتا بقرة، ومن الغنم ألفا شاة ومن الحلل مائتا حلة كل حلة ثوبان إزار ورداء هو المختار. (وكفارتهما) أي الخطأ وشبه العمد (عتق قن مؤمن فإن عجز عنه صام شهرين ولاء ولا إطعام فيهما) إذ لم يرد به النص والمقادير توقيفية".

( كتاب الديات، ٦ / ٥٧٣، ط: دار  الفكر)

الفتاوى الهنديةمیں ہے:

"جوز الصلح عن جناية العمد والخطأ في النفس وما دونها إلا أنه لو صالح في العمد على أكثر من الدية جاز، كذا في الاختيار شرح المختار ويكون المال حالا على الجاني في ماله دون العاقلة، كذا في الحاوي.وفي الخطأ لو صالح على أكثر من الدية لايجوز، كذا في الاختيار شرح المختار."

( كتاب الصلح، الباب الثاني عشر في الصلح عن الدماء والجراحات، ٤ / ٢٦٠، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409101664

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں