بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دماغی علوم کی تعلیم حاصل کرکے ریکی اور اسکیننگ وغیرہ کے ذریعے علاج کرنا


سوال

میری  بہن نے دماغی علوم  (mind sciences) کے تعلیمی کورس کئے ہیں، اور وہ اس کو بطور پروفیشن استعمال کرتی ہیں، جس میں ریکی ہے، اسکیننگ ہے، ریکی میں مختلف جیپنیز سیمبل ہیں،  جن سے بہن کو ان کے استاد نے جوڑا ہے، اور بتایا گیا  کہ کسی  بھی شخص یا مریض  کو ریکی دینے کے لیے  پہلے اللہ تعالیٰ سے دعا کرکے  ان سیمبل کو  کال کرکے  ریکی  شروع کرنی ہوتی ہے۔ جب کہ  اسکیننگ میں مختلف  دائروں / طول وعرض  میں داخل ہوکر چیزوں یامعلومات کا پتہ کرتے ہیں،  سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب جائز ہے تو بہن جاری رکھے ورنہ چھوڑدے؟

جواب

دماغی علوم  (mind sciences) کی تعلیم حاصل كرنے اور  اس کے ذریعے علاج  کے  جائز ہونے کے لیے شرعاً   یہ ضروری ہے کہ اس میں  جو الفاظ استعمال کیے جائیں ان کا معنی اور مفہوم معلوم ہو اور شرکیہ الفاظ  نہ ہو،اور نہ ہی شیطان اور غیر اللہ سے مدد حاصل کی جاتی ہو اور نہ ہی کسی اور غیر شرعی  کام  کا ارتکاب کیا جاتا ہو،  بلکہ صرف  جائز طریقوں سے مشقوں وغیرہ کے ذریعے سے یہ سیکھ کر مخلوق کا علاج کیا جائے ، اور اس میں جو الفاظ کہے جائیں ان کا معنی ومفہوم بھی معلوم ہوتو اس کی گنجائش ہے۔  اگر اسے کسی  ناجائز مقصد کے لیے اس کا استعمال کیا جائے، یا اس میں شرکیہ کلمات کہنے پڑتے ہوں ، یا غیر اللہ سے مدد حاصل کی جاتی ہو، یا کوئی اور خلافِ شرع بات پائی جاتی ہو یا ان کے کلمات کے معنی ومفہوم معلوم نہ ہوں تو اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا ۔

 ریکی کے بارے  میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، اس کے مطابق ریکی غیر مسلموں کی جانب سے ایجاد کردہ ایک طریقہ علاج ہے،  جس میں معالج ظاہری طور پر یا دور سے خیال و تصور میں اپنا ہاتھ مریض کے جسم پر رکھتا ہے اور ریکی کے مخصوص الفاظ (سمبل اور کوڈز) دہراتے ہوئے مریض کے اندر انرجی منتقل کرتا ہے اور مریض اپنے آپ کو شفایاب محسوس کرتا ہے۔ اس طریقہ علاج میں چند سمبل اور کوڈز بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً:

1۔چو، کو، رے (cho.ku.rei) اس کا مطلب ہے: "توانائی یہاں رکھ دو" یا  پھر"خدا یہاں ہے"۔

2۔سے،ہی،کی  (sei.hei.ki) اس کا مطلب ہے: "کائنات کی  کنجی" یا  " آدمی اور خدا ایک ہو رہے ہیں"۔

3۔ہون۔شا۔زی۔شو۔نین (hon.sha.ze.sho,nen ) اس کا مطلب ہے: "میرا اندر کا بدھا (بدھ مت خدا) پہنچتا ہے  تمہارے اندر کے بدھا تک؛ تاکہ اس کے نور اور  ادراک کو بڑھائے"۔

(العیاذ باللہ)۔ان میں بعض کوڈ شرکیہ مفہوم رکھتے ہیں، جیسا کہ کوڈ نمبر 2 اور کوڈ نمبر 3 بالکل غلط ہے؛ اس لیے اس جیسے الفاظ سے علاج کرنا جائز نہیں ہے، باقی وہ الفاظ جن کا معنی شرکیہ نہیں اور نصوصِ شرعیہ سے متصادم بھی نہ ہوں، تو ان الفاظ سے علاج کرنا جائز ہے، البتہ ایسے الفاظ جن کا معنی اور مفہوم واضح نہ ہو ان الفاظ سے علاج کرنا مکروہ ہے، اس سے اجتناب ہی کرنا چاہیے؛ تاکہ شرک وغیرہ میں داخل نہ ہوں۔

باقی اسکیننگ کا استعمال کس طرح اور کس مقصد کے لیے ہوتا ہے، اس کی مکمل تفصیل ارسال کردیں تاکہ اس کو دیکھ کر  جواب دیا جاسکے، باقی اصولی جواب اس کا بھی وہی ہے جو ماقبل تمہید میں   موجود ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"[فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.

(قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم، وليس كذلك! إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال: رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من  الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه، وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة، وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر: «من علق تميمة فلا أتم الله له»؛ لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى.وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه». قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار".

(6 / 363، کتاب الحظر والاباحة، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں