بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 محرم 1447ھ 02 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

دماغی توازن کھوئے ہوئے انسان کی نماز کا حکم


سوال

میری والدہ جن کی عمر 66 سال ہے،ان کی میموری لوسٹ ہوگئی ہے،جن کی وجہ سے ان کا ذہن نارمل کام نہیں کر رہا،اور وہ نماز پڑھنا بھول چکی ہیں،میں نے کافی مرتبہ ان کو نماز پڑھ کر دکھائی اور سب یاد کروانے کی کوشش کی، لیکن وہ نماز پڑھنے سے قاصر ہیں،اور اب میں انہیں اپنے ساتھ کھڑے ہو کر انہیں نماز پڑھاؤں تو وہ دیکھ دیکھ کر پڑھ لیتی ہیں،لیکن میں کبھی ہوتی ہوں ان کے ساتھ اور کبھی نہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس حالت میں میری امی نماز کیسے پڑھیں؟اور میموری لوسٹ ہونے کا ہمیں حالیہ ہی پتہ چلا،لیکن اس سے پہلے بھی جب امی نماز پڑھتی تھیں تو ہم سے پوچھ کر پڑھتی،2021 میں ہمیں یہ احساس ہوا کہ امی کا ذہن صحیح کام نہیں کررہا،لیکن اس وقت ہم امی کو ڈاکٹر کو دکھا نہیں سکے۔

اورپوچھنا یہ ہے کہ 2021 سے امی نے جتنی نمازیں پڑھی تو کیا ان کا کفارہ دینا ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ خاتون دماغی توازن  اس حد تک کھوچکی ہوں کہ انہیں احکام ِشریعت کا احساس بالکل باقی نہ ہو اورسمجھ بوجھ ختم ہوگئی ہو تو نماز روزے ودیگر تمام احکامِ شرع ان سے ساقط ہوچکے ہیں، ایسی صورت میں اگر نمازیں رہ جائیں تو انتقال کی صورت میں ان کا فدیہ لازم نہ ہوگا۔

لیکن اگر ابھی اتنی سمجھ ہوکہ نماز اور روزہ کووہ فرض سمجھتی ہوں، ان احکامات کا انہیں علم ہو، لیکن عمل میں غلطی ہوجاتی ہو تو نماز کے سلسلے میں مذکورہ خاتون کے گھر والے ان کی مدد کریں، یعنی نماز کے وقت گھر کا کوئی ایک فرد ان کے قریب بیٹھ کر انہیں ہدایات دیتا رہے کہ اب رکوع کریں، اب سجدہ کریں یا گھر کے افراد میں سے کوئی فرد نماز کے وقت انہیں اپنے ساتھ شامل کرلے اور وہ ان کی دیکھا دیکھی نماز ادا کریں،لہذا اس بات کا اہتمام کریں کہ نماز کے وقت میں ان کےساتھ کوئی نہ کوئی ہو جو انہیں نماز کا طریقہ بتائے،جب تک احکامات کا علم ہو اور حواس مکمل طور پر ختم نہ ہوں اس وقت تک ان پر نماز کی ادائیگی مذکورہ طریقے کے مطابق لازمی رہے گی، اس وقت تک مذکورہ خاتون کی طرف سے نمازوں کا فدیہ ادا نہیں کیا جائے گا، اس صورت میں اگر نمازیں رہ گئیں اور مذکورہ خاتون اپنی زندگی میں ان کی قضابھی نہ کرسکیں، تو ان نمازوں کے فدیہ کی وصیت کرناان پر لازم ہوگا۔

2021کی نمازوں سے پہلے کی نمازوں کے متعلق اگرغالب گمان یہ ہے کہ وہ صحیح طریقے پڑھی گئی ہیں،تو ان کا اعادہ یافدیہ وغیرہ نہیں ہے۔

سنن الکبری للبیهقي میں ہے:

"عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " رفع القلم عن ثلاثة: ‌عن ‌الصبي ‌حتى ‌يحتلم، وعن المعتوه حتى يفيق، وعن النائم حتى يستيقظ."

(كتاب الإقرار، ج:6، ص:139، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر).

(قوله وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله عليه الصلاة والسلام «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه» وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد."

(‌‌كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت،ج:2، ص:72، ط:دار الفکر)

أیضاً:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى الكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة  (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).

(قوله: وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لايلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة".

(کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:72/73، ط:سعید)

أیضاً:

"ولو اشتبه على مريض ‌أعداد ‌الركعات والسجدات لنعاس يلحقه لا يلزمه الأداء) ولو أداها بتلقين غيره ينبغي أن يجزيه كذا في القنية.

(قوله ولو اشتبه على مريض إلخ) أي بأن وصل إلى حال لا يمكنه ضبط ذلك، وليس المراد مجرد الشك والاشتباه لأن ذلك يحصل للصحيح (قوله ينبغي أن يجزيه) قد يقال إنه تعليم وتعلم وهو مفسد كما إذا قرأ من المصحف أو علمه إنسان القراءة وهو في الصلاة ط.

قلت: وقد يقال إنه ليس بتعليم وتعلم بل هو تذكير أو إعلام فهو كإعلام المبلغ بانتقالات الإمام فتأمل."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج:2، ص:100، ط:سعید)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:

"لأن ‌اليقين ‌لا ‌يزول ‌بالشك."

(کتاب الوقف، الباب الأول، ج:1، ص:151، ط:دار المعرفة)

غمز عيون البصائر میں ہے:

"لأن ‌اليقين ‌لا ‌يزول ‌بالشك، والأصل فيه أن الشك قسمان: قسم طارئ على اليقين أي حاصل بأمر خارج عنه وشك طارئ باليقين أي بمعارضة دليل مع دليل آخر، فالأول لا يزيل اليقين والثاني يخرجه عن كونه يقينا، بيان ذلك أن الشك إنما ينشأ عن عدم الدليل، أو عن تقابل دليلين متساويين متحدين زمانا ومحلا، حتى لو اختلف زمانهما يكون الثاني ناسخا للأول إذا كان دليل الوجود دون البقاء، وإن اختلف محلهما فلا تقابل، وإن جهل حصل الشك لعدم الدليل على الزوال عن المحل الآخر، والبقاء فيه، فإذا ثبت حكم يقينا لمحل معلوم، والشك في ثبوت ضد ذلك الحكم لذلك المحل إنما يتأتى في عدم دليل، أو في تقابل دليلين متساويين يقتضي أحدهما بقاء الحكم الأول، والآخر عدمه، وحينئذ يتساقطان ويبقى الحكم الأول بدليل، فهذا معنى قولهم اليقين لا يرتفع بالشك."

(القاعدۃ الثالثة، ج:1، ص:197، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144612101463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں