بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دماغی توازن برقرار نہ ہو تو نماز کا کیا حکم ہے ؟


سوال

ایک شخص زیادتی عمر کی وجہ سے کبھی اس کا دماغی توازن برقرار نہیں رہتا، اور جب افاقہ ہوتا ہے تو نماز پڑھتا ہے ، اور اس نماز میں بھی ادھر اُدھر دیکھتا ہے ، تو یہ شخص نماز ادا کرے یا اس کی طرف سے نمازوں کا فدیہ ادا کیاجائے ؟اور جن نمازوں میں افاقہ نہیں ہوتا ان کے بارے میں کیا کرے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص دماغی توازن اگر اس حد تک کھوچکا ہو کہ احکام شریعت کا احساس بالکل باقی نہ ہو اور اس شخص کی سمجھ بوجھ ختم ہوگئی ہو تو نماز روزے وغیرہ تمام احکامِ شرع ایسے شخص سے ساقط ہوچکے ہیں۔ایسی صورت میں اگر نمازیں رہ جائیں تو انتقال کی صورت میں ان کا فدیہ لازم نہ ہوگا۔

لیکن اگر ابھی اتنی سمجھ ہے کہ نماز اور روزہ کو مذکورہ شخص فرض سمجھتاہے ، ان احکامات کا اسے علم ہے ، لیکن عمل میں غلطی ہوجاتی ہے تو  نماز کے سلسلے میں مذکورہ شخص کے گھر والے ان کی مدد کریں،  یعنی نماز کے وقت گھر کا کوئی ایک فرد ان کے قریب بیٹھ  کر انہیں ہدایات دیتا رہے کہ اب رکوع کرو، اب سجدہ کرو  یا گھر کے افراد میں سے کوئی فرد نماز  کے وقت انہیں اپنے ساتھ شامل کرلے اور وہ ان کی دیکھا دیکھی نماز ادا کرے  ۔جب تک احکامات کا علم ہو اور حواس مکمل طور پر ختم نہ ہوں اس وقت تک اس شخص پر نماز کی ادائیگی مذکورہ طریقے کے مطابق لازمی ہے ۔ اس وقت تک مذکورہ شخص کی طرف سے نمازوں کا فدیہ ادا نہیں کیا جائے گا۔اس صورت میں اگر نمازیں رہ گئیں اور مذکورہ شخص اپنی زندگی میں ان کی قضابھی نہ کرسکا، تو ان نمازوں کے فدیہ کی وصیت کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

’’وإن قضى في المرض فوائت الصحة قضاها كما قدر قاعدا أو مومئا، كذا في السراجية.مصل ‌أقعد ‌عند ‌نفسه إنسانا فيخبره إذا سها عن ركوع أو سجود يجزيه إذا لم يمكنه إلا بهذا، كذا في القنية.‘‘۔

(ج:1،ص:138،ط:دارالفکر بیروت)

البحرالرائق میں میں ہے :

’’وفي القنية مريض لا يمكنه الصلاة ‌إلا ‌بأصوات مثل أوه ونحوه يجب عليه أن يصلي ‘‘۔

(ج:2،ص:124،ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507100466

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں