بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دماغی بیماری میں ڈاکٹر کے پاس جانا


سوال

 میری عمر تقریباً 40 سال ہے ۔17 سال کی عمر میں ایک دماغی عارضے میں مبتلا ہو گیا تھا ۔ ابھی تک اس بیماری کے اثرات ہیں۔ اب کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے بیماری ۔ میں نے ایک تقوی دار مفتی صاحب سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ یہ سب گناہوں کا نتیجہ ہے ۔ (گناہ تو واقعی بہت تھے) مفتی صاحب کہتے ہیں کہ جب تک قضا نمازیں گزشتہ گناہ اور قضا روزے وغیرہ کا حساب نہیں پورا ہو گا اس وقت تک زندگی میں سکون نہیں آئے گا اور ڈاکٹر کے پاس جانے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا ۔ لیکن میری بیماری ایسی ہے جس میں تمام احکامات پر عمل نہیں کرسکتا ۔ کیا مفتی صاحب کی بات %100 درست ہے ۔ اور ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں  بے شک گناہوں سے پرہیز لازم ہے، اور جو نمازیں اور روزے ذمے  پر  لازم  ہیں،  ان کی قضا کا اہتمام کیا جائے، تاہم  کسی دین دار  اور متعلقہ مرض کے ماہر کسی  ڈاکٹرکے پاس بھی ضرور جائیں ،علاج کروانا سنت ہے۔ 

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144312100422

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں