بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پراپرٹی ڈیلرکا فائل اور فارم کی فروخت میں نفع لینے کا حکم


سوال

1۔میں ایک ڈیلر ہوں اور میں ہاؤسنگ کے لیے کام کرتاہوں ، پانچ مرلہ پلاٹ کی قیمت دس لاکھ روپے  ہے ، اس کی بکنگ ایک لاکھ روپے ہے ، ایک لاکھ روپے کی فائل مجھے کمپنی پچاس ہزار  روپے میں  دیتی  ہے ، میں  اس  فائل  پر  کچھ  منافع  رکھ   کر اس کی اصل   قیمت   ایک  لاکھ روپے یااس سے کم میں  خریدا ر کو بیچ دیتاہوں، جس سے مجھے  کچھ پیسے بچ  جاتے ہیں ، تو اس صورت میں مجھے جو پیسے  بچ جاتے ہیں ،کیا وہ میرے  لینا جائز ہے یانہیں ؟

2۔مجھے کمپنی کے طرف سے ایڈوانس کے طور پر کچھ رقم جمع کروانے پر ڈسکاونٹ فارم ملتے ہیں ،ا س میں سے ایک فارم کی قیمت اٹھارہ ہزارپانچ سو روپے ہوتی ہے اورر یہ فارم میں اپنے کسٹمر  کو بیس ہزار روپے پر فروخت کرتاہوں جس میں سے مجھے پندرہ سو بچ جاتے ہیں   اور یہ فارم کسٹمر کی فائل میں اٹھائیس ہزار کاجمع ہوتاہے ، اگریہ فارم کسٹمر کمپنی سے ڈائریکٹ لے لیں تو کمپنی  سے اس کو پچیس ہزار روپے کاملتاہے جو اٹھائیس ہزار روپے میں جمع ہوتاہے تو اس صورت میں جو پندرہ سو روپے ایک فارم پر مجھے بچتے ہے وہ جائز ہے یانہیں ؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں سائل کو کمپنی کے طرف سے جس پلاٹ کی  فائل پچاس ہزار روپے میں ملتی ہے اور پھر سائل اس فائل کو آگے  فروخت کرتاہے تو اس صورت میں  اگر  ان  پلاٹوں  کے نمبر  لگے ہوں   تو اس صورت میں ان پلاٹوں کی  خریدوفروخت جائز ہوگی اور سائل ان پلاٹوں کو آگے نفع کے ساتھ فروخت کر سکتاہے  ،اسی طرح  سائل کے لیے پلاٹو ں  کے خریدوفروخت سے حاصل شدہ نفع بھی حلال ہوگا، لیکن اگر ان پلاٹوں کے نمبر نہیں لگے ہوں تو پھر اس صورت میں ایسے پلاٹوں کو آگے فروخت کرنا اورسائل کے لیے اس کانفع لینا جائز نہیں ہوگا۔

2۔  سائل کمپنی میں ایڈوانس کے طور پر جو رقم جمع کرتا ہے  اور پھر اس پر سائل کو  ڈسکاونٹ فارم ملتے ہیں ،جس میں ایک فارم  سائل کو ساڑھے اٹھارہ ہزار روپے  کا ملتا ہے  اور پھر  سائل اس سے  آگے کسٹمر کو بیس ہزار روپے میں فروخت کرتاہے تو اس صورت میں سائل کا اس فائل کو آگے کسٹمر کو فروخت کرنا اور پندرہ سوروپے منافع لینا شرعاجائز نہیں ہے ۔

ردالمحتار میں ہے:

"قلت:ووجه كون الموضعمجهولا أنه لم يبين أنه من مقدم الدار، أو من مؤخرها، وجوانبها تتفاوت قيمة فكان المعقود عليه مجهولا جهالة مفضية إلى النزاع، فيفسد كبيع بيت من بيوت الدار كذا في الكافي عزمية۔"

(کتاب البیوع،مطلب مهم في أحكام النقود إذا كسدت أو انقطعت أو غلت أو رخصت 4/ 545 ط : سعید)

شرح المجلۃ لسلیم للرستم باز میں ہے:

" (يلزم أن يكون المبيع معلوما عند المشتري) لان البیع المجھول فاسد"۔

(الکتاب الأول فی البیوع ،الباب الثانیِ فی بیان المسائل المتعلقة بالمبیع، المادۃ:200، 1/ 78،ط:مکتبہ رشدیہ)

وفیہ أیضا:

"(يلزم أن يكون المبيع مقدور التسليم) فبیع غیر مقدور التسلیم باطلقال القردی عن جواہر الفتاوی :باع عقاراً ملکه لکن فی ید آخرالفتوی علی انه لا یصح عملاً بقول محمد؛ لانه لا یقدر علی تسلیمه اھ"۔

(الکتاب الأول فی البیوع ،الباب الثانیِ فی بیان المسائل المتعلقة بالمبیع ، المادۃ:198، 1/78،ط:مکتبہ رشدیہ)

ر دالمحتار علی ہامش الدر المختار  میں ہے :

"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا۔"

(شامی،مطلب كل قرض جر نفعا حرام 5/ 166 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100398

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں