میری شادی کو چھ ماہ ہوگئے، مگر شادی کے ایک مہینے بعد سے بار بار دل میں آتا ہے کہ میں منہ سے طلاق کے الفاظ نکالوں، حالاں کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دینا نہیں چاہتا،کیوں کہ میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں، اس حوالے سے میں نے نفسیاتی ڈاکٹر سے علاج بھی کیا، مگر یہ خیال دل سے نہیں جا رہا، پوچھنا یہ ہے کہ ایسی صورت میں اگر میرے منہ سے طلاق کے الفاظ نکل گئےتو کیا طلاق ہوجائے گی؟
صورتِ مسئولہ میں دل میں وساوس آنے کی وجہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی، سائل ان وساوس کی طرف توجہ نہ دے، جب وسوسے آئیں تو اپنے آپ کو کسی کام میں مصروف کردیں فارغ نہ بیٹھیں، یا کسی اور موضوع پر گفتگو شروع کردیں، نیز کچھ صدقہ دینے کا اہتمام کریں اور ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت کریں تاکہ یہ وساوس ختم ہوں۔
طلاق کے وقوع کے لیے زبان سے الفاظ کی ادائیگی ضروری ہے، اگر خدا نخواستہ زبا ن سے واضح الفاظ نکل جائیں جو سننے والے کی سمجھ میں آجائیں تو اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا زبان سے کبھی بھی الفاظ طلاق نہ نکالیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح۔۔۔ولو قيل له: طلقت امرأتك فقال: نعم أو بلى بالهجاء طلقت بحر (واحدة رجعية،)."
(کتاب الطلاق ،باب الصریح،ج3 ص247 ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307200056
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن