بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دل سے نکاح کی نیت کرنے کا حکم


سوال

کیا بغیر کسی معلم کے کسی  کو صرف دل سے قبول کرنے سے نکاح ہوجاتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح منعقد ہونے کے لیے  دو  عاقل ،بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں زبان سے ایجاب و قبول کرنا   ضروری ہے ، ان دونوں شرائط کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا ، لہٰذا صرف د ل سے نکاح کی یا کسی کو قبول کرنے کی نیت کرنے سے نکاح   نہیں ہوتا ، باقی معلم یا خطیب  سے نکاح پڑھوانا کوئی لازمی امر نہیں ہے، جس شخص کو بھی مسائل شریعت سے بخوبی  واقفیت ہو، ایجاب و قبول کی درست تعبیر کرسکتا ہو  ، دین دار ہواور نکاح کا مسنون خطبہ پڑھ سکتا ہو ، اس سے نکاح پڑھوانا مستحب ہے۔

ہدایہ میں ہے:

"قال: " النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي " لأن الصيغة وإن كانت للإخبار وضعا فقد جعلت للإنشاء شرعا دفعا للحاجة " ‌وينعقد بلفظين يعبر بأحدهما عن الماضي وبالآخر عن المستقبل مثل أن يقول زوجني فيقول زوجتك."

"قال: " ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه:اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود."

(کتاب النکاح ،325،26/2،ط:رحمانیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك(و) يقول الآخر (تزوجت، و) ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال."

"إنما قلنا هذا؛ لأن الشرع يعتبر الإيجاب والقبول أركان عقد النكاح لا أمورا خارجية كالشرائط."

(کتاب النکاح،8,9/3،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"ويندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة ‌بعاقد ‌رشيد وشهود عدول.

"(قوله: بعاقد رشيد وشهود عدول) فلا ينبغي أن يعقد مع المرأة بلا أحد من عصبتها، ولا مع عصبة فاسق، ولا عند شهود غير عدول خروجا من خلاف الإمام الشافعي."

(كتاب النكاح،8/3، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(‌وأما ‌ركنه) فالإيجاب والقبول، كذا في الكافي.

(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسيره شرعا وصفته وركنه و شرطه و حكمه،367/1,ط:ماجدية)

الموسوعة الفقهية  میں ہے:

"نص الحنفية على أنه يندب أن يكون النكاح ‌بعاقد ‌رشيد وشهود عدول، فلا ينبغي أن يعقد مع المرأة بلا أحد من عصبتها، ولا مع عصبة فاسق، ولا عند شهود غير عدول، خروجا من خلاف الإمام الشافعي الذي يرى أن الذي يجري العقد وليها.

ونص المالكية على أنه يندب تفويض ولي المرأة ومثله الزوج العقد لفاضل ترجى بركته، وأما تفويض العقد لغير فاضل فهو خلاف الأولى."

(نكاح،مايسن في النكاح،41/ 222،ط:وزارة الأوقاف،كويت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’شرعاً پورا اختیار ہے جس کے ذریعے دل چاہے نکاح پڑھوالیا جائے، کسی خاص نکاح خواں کی کوئی قید نہیں ہے، لہذا جو شخص دین دار اور مسائل نکاح سے واقف ہو اس سے پڑھوایا جائے.‘‘

(كتاب النكاح ، عنوان: نکاح کِس سے پڑھوایا جاۓ ؟،594/10، ط: جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101252

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں