بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دل میں طلاق سوچنے سے طلاق کا حکم


سوال

شفیق تحریر لکھ رہا تھا دنیا سے امیدیں لگانا چھوڑ دیں شفیق نے یہ تحریر 100 مرتبہ لکھی اور اسی دوران جب وہ یہ تحریر لکھ رہا تھا دل میں کہا کہ وہ شاہستہ کو طلاق دیتا ہےشفیق اللہ کی قسم کھاتا ہے کہ اس نے طلاق کی نیت سےکوئی لفظ نہیں لکھا اور نہ ہی بولا،  دوران تحریر اس نے طلاق کے جملے دل میں بولے ۔مذکورہ جملہ بولتے ہوئے شفیق کی طلاق کی نیت تھی لیکن جو تحریر وہ اس دوران لکھ رہا تھا اس پر اس کی طلاق کی نیت نہ تھی ؟

جواب

صورت مسئولہ میں جب شفیق نے کاغذ پر طلاق کے الفاظ نہیں لکھے بلکہ کاغذ پر یہ لکھا کہ "دنیا سے امیدیں لگانا چھوڑ دیں" اور نہ ہی زبان سے طلاق کے الفاظ بولے تو محض دل میں طلاق سوچنے سے طلاق واقع نہیں ہوئی، شفیق اور اس کی بیوی کے درمیان نکاح کا رشتہ قائم ہے۔ شفیق کو چاہیے کہ ان   وساوس اور خیالات کو ذہن میں جگہ نہ دے ورنہ یہ بڑھتے چلے جائیں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وركنه لفظ مخصوص

(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.

وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره."

(کتاب الطلاق ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۳۰، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100776

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں