بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دل میں طلاق کی نیت کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی


سوال

اگر کسی انسان نے اپنی بیوی سے الگ ہونے کی نیت کی اور اس میں طلاق کی نیت کی، لیکن ایک اور دو کا کوئی تذکرہ اور تبصرہ اس میں نہیں، تو اس صورت میں اس کی بیوی کو کون سی طلاق ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق محض نیت کرنے یا سوچنے سے نہیں ہوتی لہذا کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال الليث: الوسوسة حديث النفس، وإنما قيل: موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره. وعن الليث: لا يجوز طلاق الموسوس."

(‌‌‌‌كتاب الجهاد، باب المرتد، ٤/ ٢٢٤، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر ... وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره."

(كتاب الطلاق،  ٣/ ٢٣٠، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں