بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دل میں طلاق کو معلق کیا تو کیا حکم ہے؟


سوال

شفیق ایک ہی وقت میں دو کام کر رہا تھا ایک تو وہ دل میں کہ رہا تھا کہ اگر اس نے دودھ پیا تو اس کی بیوی کو طلاق اور ساتھ ہی زبان سے خوف کی وجہ سے نہیں نہیں اس طرح نہیں کے الفاظ زبان سے بول رہا تھا چونکہ اس کے دل میں طلاق معلق کرنے کی پکی نیت تھی تو کیا اس کی طلاق معلق ہوگی جب کہ وہ قسم کھاتا ہے کہ نہیں نہیں اس طرح نہیں کے الفاظ نہ تو اس نے طلاق کی نیت سے کہے اور نہ ہی تعلیق کی نیت سے، البتہ اسی دوران جب وہ یہ جملے بول رہا تھا تو اس نے دل میں دودھ نہ پینے پر طلاق کو معلق کیا ہے اس كو وہ مانتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ ميں جب زبان سے طلاق کےمذكوره الفاظ ( اگر اس نے دودھ پیا تو اس کی بیوی کو طلاق)  نہیں بولے، بلکہ  صرف دل ميں  یہ الفاظ  کہے تو  اس  سے  طلاق معلق نہیں ہوئی۔

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"حتى لو أجرى الطلاق على قلبه وحرك لسانه ‌من ‌غير ‌تلفظ يسمع لا يقع."

(حاشیةالطحطاوی علی مراقی الفلاح،كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة وأركانها،ص:206،ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"«وركنه لفظ مخصوص». 

(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس و الإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.و به ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظا لا صريحًا و لا كنايةً لايقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، و كذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لايقع به طلاق و إن نواه."

(الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الطلاق، 239/3، سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411100875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں