بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دل کی تسكين كے ليے عورتوں كاقبرستان جانا


سوال

ہم چَندعورتیں باپردہ اور خاموشی کے ساتھ صرف درودو فاتحہ کرنے کےلیے قبرستان جاتی ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کا قبرستان جانا گناہ ہے،ہمیں صحیح رہنمائی فرمادیں۔ہم اس نیت سے قبرستان  جاتی ہیں کہ اپنوں کی یاد اوردل کو تَسلّی مل جائے گی، دل جب بہت تڑپتا ہے ،تواپنوں کیلے وہاں چلی جاتی ہیں۔ ‎

جواب

واضح رہے کہ عورت کامطلقاًاپنے گھر سے نکلنافتنہ اور مفاسدِکثیرہ کاباعِث ہے ،اِسی وجہ سے عورتوں کاقبرستان جانا مکروہ ہے ، فقہاء کرام نے مکروہ قرار دیا ہے،کیوں کہ اگر یہ جَزع ،فَزع یاغم کی تازگی کے لیے جائیں گی تو یہ گناہِ کبیرہ ہے ،اِیسی عورتوں پر حدیثِ مبارکہ میں لعنت آئی ہے،نیز عورتوں کاجب مَساجد میں نماز کے لیے جانامنع ہے، تو قبرستان جانابَدرجہ اولٰی منع ہے،البتہ اگر بوڑھی عورت  آخرت کی تذکیر کے لیےقبرستان جائے تواس شرط کے ساتھ اس کواِجازت ہے کہ وہاں قبرستان میں جَزع فَزع نہیں کرے گی،باقی جوان عورت کا قبرستان جانا مطلقا مکروہ ہے ۔ اگر کچھ خواتین ضبط و تحمل کرتی ہوں اور مذکورہ قباحتوں سے خود کو بچا بھی لیں، تو پھر بھی دیگر خواتین کے لیے مذکورہ غلطیوں کے ارتکاب کے لیے نمونہ بنیں گی،جبکہ یہ کوئی ضروری عمل بھی نہیں ، اس لیے احتیاط کرنے میں ہی عافیت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وبزيارة القبور ولو للنساء لحديث "كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها"وفي الرد:قوله:( ولو للنساء) وقيل: تحرم عليهن. والأصح أن الرخصة ثابتة لهن بحر، وجزم في شرح المنية بالكراهة لما مر في اتباعهن الجنازة. وقال الخير الرملي: إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز، وعليه حمل حديث "لعن الله زائرات القبور" وإن كان للاعتبار والترحم من غير بكاء والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز. ويكره إذا كن شواب كحضور الجماعة في المساجد."

(كتاب الصلاة، باب الجنائز، ج:2، ص:242، ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے :

"قوله (وقيل: ‌تحرم على النساء إلخ) قال الرملي :أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث "لعن الله زائرات القبور" ، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز ويكره إذا كن شواب كحضور الجماعة في المساجد."

(كتاب الجنائز، ‌‌الصلاة علي الميت في المسجد، ج:2، ص:٢٠١، ط:دار الكتاب الإسلامي)

عمدۃ القاری میں ہے:

"وقال بعضهم: إنما تكره زيارة القبور للنساء لقلة صبرهن وكثرة جزعهن. وروى أبو داود عن ابن عباس، قال: (لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم زائرات القبور والمتخذين عليها المساجد والسرج) ، واحتج بهذا الحديث قوم، فقالوا: إنما اقتضت الإباحة في زيارة القبور للرجال دون النساء، وقال ابن عبد البر: يمكن أن يكون هذا قبل الإباحة. قال: وتوقي ذلك للنساء المتجملات أحب إلي، وإما الشواب فلا يؤمن من الفتنة عليهن وبهن حيث خرجن، ولا شيء للمرأة أحسن من لزوم قعر بيتها. ولقد كره أكثر العلماء خروجهن إلى الصلوات فكيف إلى المقابر؟ وما أظن سقوط فرض الجمعة عليهن إلا دليلا على إمساكهن عن الخروج فيما عداها."

(كتاب الجنائز، باب زيارة القبور، ج:8، ص:٦٩، ط:دار الفكر)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"اصل یہ ہے کہ عورتوں میں تحمّل کم ہوتاہے،قبروں کودیکھ کر بسا اوقات  بے صبری کی حالت میں رونا،چلّانا وغیرہ حَرکات شروع کردیتی ہیں،نِیز مطلقاًعورتوں کاگھر سے نکلنافِتنہ ہے اور اس میں مفاسدِکثیرہ ہیں ،اِس لیے ممنوع ہے۔"

(کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور،  ج:9،193 )

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508102009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں