بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دیہات میں نماز جمعہ کے بعد ظہر احتیاطی کا حکم


سوال

 دیہات میں نماز جمعہ  کے ساتھ ساتھ  احتیاطاً ظہر کی نماز ادا کرنا کیسا ہے؟ اور وہ دیہات کیسا ہو اس کی کیا پہچان ہے اور وہ بھی ظہر احتیاطی جماعت کے ساتھا پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

جس جگہ کو مفتی بہ قول کے مطابق نماز جمعہ کی ادائیگی کا محل قرار دیا گیا ہے  وہاں نماز جمعہ  کی ادائیگی ضروری ہے،  وہاں احتیاطاً ظہر پڑھنا جائز نہیں۔ اور جس جگہ کو  مفتی بہ قول کے مطابق  نماز جمعہ کے انعقاد کا محل نہیں قرار دیا گیا وہاں  نمازِ  جمعہ جائز نہیں، وہاں جمعہ کے بجائے نماز ظہر ادا کی جائے، احتیاط اسی  میں  ہے۔

اور جس گاؤں میں جمعہ کی نماز قائم کرنے کی اجازت ہے وہ گاؤں ہے جو بڑی بستی کے حکم میں ہو، یعنی جس کی آبادی کم از کم ڈھائی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہو، اور ضروریاتِ زندگی وہاں دست یاب ہوں، ڈاکٹر، ڈاک خانہ، پولیس اسٹیشن یا کوئی سرکاری دفتر وغیرہ موجود ہو۔ لہٰذا ایسے گاؤں میں جمعہ قائم کرنا درست ہے، اور اس کے بعد احتیاطی ظہر پڑھنا جائز نہیں  ہے، اسی طرح اگر کسی گاؤں میں  اگرچہ قیامِ جمعہ کی شرائط نہ پائی جاتی ہوں، لیکن پہلے سے جمعہ کی نماز پڑھی جاتی ہو اور اب جمعہ بند کرانے میں فتنے کا اندیشہ ہو تو وہاں جمعہ کی نماز ادا کی جائے گی، اور اس کے بعد ظہر ادا کرنا درست نہیں ہوگا۔

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"جواب: جب کوئی جگہ مفتی بہ قول کے موافق محل  جمعہ قرار پا گئی  تو پھر وہاں ظہر بعد جمعہ پڑھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ تعدد جمعہ  کے خلاف کی وجہ سے کوئی شخص ظہر احتیاطی  پڑھے، اور جب یہ منع تو وہ بھی منع ہوگا۔"

(فتاوی دار العلوم دیوبند، ج: 5/ صفحہ: 139، ط: دارلاشاعت، کراچی) و کفایت  المفتی (ج: 5/ 254 و255، ط: ادارہ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں