بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیجیٹل تصویر کے جائز ہونے کا فتوی کیوں؟


سوال

آج کل علمائے کرام سب نہیں، لیکن اکثر ڈیجیٹل ویڈیو کے جائز ہونے کایہ کہہ  کر کہتے ہیں کہ اول تو یہ نقاط پر مشتمل ہوتی ہے اور جس چیز کی وڈیو بنائی اس کا عکس محفوظ نہیں ہوتا اور دوسرا کہ  اِس میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، اور جس چیز میں علمائے کرام کا اختلاف ہو  اُس کے  لیے وہ جو کچھ بتاتے ہیں وہ مجھے صحیح طور پر پتا  نہیں؛  لہذا اِس کے  لیے معذرت  چاہتا ہوں۔

میرا استدلال یہ ہے کہ اسلام اصول بتاتا ہے؛  لہذا جب اسلام تصویر کو حرام قرار دیتا ہے تو چاہے وہ کوئی بھی ذریعہ استعمال کر کے بنائی گئی ہو،  چاہے ہاتھ سے، عام کیمرے سے   جِس میں فلم ڈلتی ہے یا ڈیجیٹل کیمرے سے، بہر صورت  حرام ہے اور یہی صورت ویڈیو یا فلم بنانے کی بھی ہے اور حدیثِ مبارکہ حضور نبی کریم علیہِ صلوٰۃ  وسلام کا مفہوم ہے کہ کچھ چیزیں حلال ہیں اور کچھ حرام اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ، اور مشتبہ چیزوں کو بھی چھوڑنے کا حکم ہے۔ تو کیا اِس صورت میں بھی علمائے کرام کا ڈیجیٹل وڈیو کے جواز کا فتوٰی دینا جائز ہے؟ 

جواب

ڈیجیٹل تصویر اور ویڈیو سے متعلق   ہمارے ادارے (جامعہ علوم اسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، کراچی) کا فتویٰ یہ  ہی ہے کہ یہ تصویر ہے اور  جس طرح کاغذ پر بنی ہوئی جان دار کی تصویر حرام ہے، اسی طرح  یہ بھی حرام ہے۔

ڈیجیٹل تصویر کے مجوزین حضرات کے پاس اپنے قول کے دلائل ضرور ہوں گے، لیکن ہمیں ان سے اتفاق نہیں ہے؛ اس لیے کہ  جان دار کی تصویر کی حرمت سے متعلق نصوص عام ہیں، نیز ہمارے اکابر  نے  جان دار کی تصویر سازی کو مطلقًا ناجائز قرار دیا ہے، خواہ تصویر بنانے کے لیے کوئی آلہ استعمال کیا جائے، اور قریب زمانے تک برصغیر کے اہلِ حق علماء کا تقریبًا اس پر اتفاق رہا ہے، بہرحال اگر اس مسئلے میں اہلِ علم کی آراء کا اختلاف معتبر مانا جائے تو بھی جان دار کی ڈیجیٹل تصویر کے ناجائز ہونے کو ہی ترجیح حاصل ہوگی، اس لیے کہ جس مسئلے میں جائز و ناجائز کا اختلاف ہو، وہاں ترجیح حرمت کو حاصل ہوتی ہے۔ آپ نے سوال میں جس حدیثِ مبارک کا مفہوم ذکر کیا ہے، اس سے بھی علماءِ کرام نے یہی اصول مستنبط کیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جان دار کی تصویر خواہ ہاتھ سے کاغذ یا کسی چیز پر بنائی جائے یا کیمرے کے ذریعے بنائی جائے، یا ڈیجیٹل کیمرے سے جان دار کی ویڈیو بنائی جائے، بہرصورت ناجائز ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے، خصوصًا اہلِ علم کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200907

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں