بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیجیٹل کرنسی (Digital currency) میں سرمایہ کاری کرنے اور نفع کمانے کا حکم


سوال

آج کل کرپٹو کرنسی اور ڈیجیٹل کرنسی کو لے کر  بہت  ہنگامہ ہورہا ہے، ہر بندے کا اپنا نظریہ ہے، کیا” ڈیجیٹل کرنسی“  میں سرمایہ کاری کرنا جائز ہے ہا نہیں؟ اس سے حاصل ہونے والی کمائی جائز ہے یا نہیں؟

جواب

مختلف  ناموں سے رائج   ڈیجیٹل کرنسی جسے ’’ کرپٹو کرنسی ‘‘  بھی کہا جاتا ہے ،يه  محض ایک فرضی کرنسی ہے؛ کیوں کہ اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط موجود نہیں ہیں، بلکہ اس   کا تو کوئی مادی وجود  ہی نہیں ہے اور نہ ہی قبضہ کی کوئی صورت ہے، صرف چند اعداد  کی ہیر پھیر کو کرنسی قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے، اسے ’’کرنسی‘‘ یا ’’مال‘‘  قرار نہیں دیا جاسکتا ہے؛ لہٰذا اس کے  ذریعہ لین دین کرنا، اس میں سرمایہ کاری کرنا اور اس کا کاروبار کرنا جائز نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی بھی جائز نہیں ہے۔

تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

’’ آج کل عالمی  مارکیٹ میں ایک کوئن رائج ہے جسے ’’بٹ کوئن‘‘ یا ’’ڈیجیٹل کرنسی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ  محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ  زمانے میں " کوئن" یا "ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مبیع  وغیرہ مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا، صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوئے کی ایک شکل ہے، اس لیے " بٹ کوائن" یا کسی بھی " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔‘‘

( تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا: 2/ 92)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 501):

’’(هو) لغةً: مقابلة شيء بشيء مالًا أو لا ... وشرعًا: (مبادلة شيء مرغوب فيه بمثله) خرج غير المرغوب كتراب و ميتة و دم على وجه) مفيد. (مخصوص).

 (قوله: هو لغةً مقابلة شيء بشيء) أي على وجه المبادلة ولو عبر بها بدل المقابلة لكان أولى كما فعل المصنف فيما بعد، وظاهره شمول الإجارة؛ لأن المنفعة شيء باعتبار الشرع أنها موجودة حتى صح الاعتياض عنها بالمال، وكذا باعتبار اللغة تأمل. مطلب في تعريف المال والملك والمتقوم (قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة و ما يتمول بلا إباحة انتفاع لايكون متقومًا كالخمر، و إذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم، بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.

و حاصله: أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم، فلذا فسد البيع بجعلها ثمنا، وإنما لم ينعقد أصلا بجعلها مبيعا؛ لأن الثمن غير مقصود بل وسيلة إلى المقصود، إذ الانتفاع بالأعيان لا بالأثمان، ولهذا اشترط وجود المبيع دون الثمن، فبهذا الاعتبار صار الثمن من جملة الشروط بمنزلة آلات الصناع وتمام تحقيقه في فصل النهي من التلويح. ومن هذا قال: في البحر: ثم اعلم أن البيع وإن كان مبناه على البدلين لكن الأصل فيه المبيع دون الثمن؛ ولذا تشترط القدرة على المبيع دون الثمن وينفسخ بهلاك المبيع دون الثمن. اهـ.وفي التلويح أيضا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك عند الشافعي‘‘.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 257):

"باب الصرف عنونه بالباب لا بالكتاب؛ لأنه من أنواع البيع (هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) - أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافا أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح، و) العوضان (لا يتعينان) حتى لو استقرضا فأديا قبل افتراقهما أو أمسكا ما أشار إليه في العقد وأديا مثلهما جاز.(ويفسد) الصرف (بخيار الشرط والأجل) لإخلالهما بالقبض."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200793

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں