بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فاریکس اور ڈیجیٹل کرنسی کا حکم


سوال

فاريكس ٹریڈنگ اور ڈیجیٹل کرنسی کے بارے میں حکم بیان کریں!

جواب

 فاریکس کا کاروبار درج ذیل وجوہ کی بنا پر جائز نہیں:

(1)   کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس  میں بدلین پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے جب کہ دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے، لہذا اسپاٹ ٹریڈ ہو یا فیوچر ٹریڈ، ایسے تمام سودے ناجائز ہیں  جن میں کرنسی کی خرید و فروخت ادھار ہوتی ہے  یا نقد ہوتی ہے، مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا۔ الحاصل تقابض (جانبین سے مجلس میں قبضہ) نہ پائے جانے کی وجہ سے ایسے سودے فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔

(2) مسلم (طے شدہ) اصول ہے کہ بیع شرطِ فاسد  سے فاسد ہو جاتی ہے، "فاریکس"  کے کاروبار میں شروطِ فاسدہ بھی لگائی جاتی ہیں، مثلاً swaps (بیع بشرط الاقالہ) میں یہ شرط لگانا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد بیع کو  ختم کیا جائے گا حال آں کہ بیع تام ہو جانے بعد لازم ہوجاتی ہے اور جانبین کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

(3) نیز Options میں خریدار کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی بیع کو فریقِ مخالف کی رضا مندی کے بغیر بھی "اقالہ" کرسکتا ہے۔ یہ بھی شرطِ فاسد ہے، کیوں کہ "اقالہ" میں جانبین کی رضامندی شرط  ہوتی ہے۔

(4) فیوچر سیل کی جو صورت اوپر بیان ہوئی وہ بیع ناجائز ہے؛ کیوں کہ  بیع  کا فوری ہوناضروری ہے ،مستقبل کی تاریخ پر خریدوفروخت ناجائز ہے۔

(5) اس  طریقہ کاروبار میں ایک قباحت "بیع قبل القبض" کی بھی ہے؛ کیوں کہ اکثر لوگ اس مارکیٹ میں خریداری محض کرنسی ریٹ کےاتار چڑہاؤ کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کےلیے کرتے ہیں، ان کا مقصد کرنسی حاصل کرنا نہیں ہوتا؛ لہذا اکثر خریدار کرنسی کا قبضہ حاصل نہیں کرتے اور آگے بیچ دیتے ہیں۔

جہاں تک معاملہ ہے ڈیجیٹل کرنسی کا تو وہ تاحال مشتبہ ہے اور پاکستان میں اسے قانونی کرنسی کی حیثیت بھی حاصل نہیں ہے؛ اس لیے اس کی خرید و فروخت  نیز  اس کے ذریعہ کاروبار کی کسی بھی شکل سے  گریز  کرنا چاہیے۔تفصیلی فتویٰ  ہمارے ماہنا مہ "بینات " میں شائع ہوچکا ہے ، آپ درج  ذیل لنک سے حاصل کرسکتے ہیں:

http://www.banuri.edu.pk/web/uploads/2017/04/9-rajab_1438.pdf

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں