بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیجیٹل کرنسی کی خرید و فروخت اور اس سے حاصل ہونے والے منافع کا حکم


سوال

مہربانی فرماکر دیجیٹل کرنسی کی خرید و فروخت کے ذریعہ منافع کمانے کے حوالہ سے حوالہ جات ،دلائل سمجھائیں !

جواب

واضح رہے کہ ڈیجیٹل کرنسی محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ  زمانے میں " کوئن" یا "ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے " بٹ کوائن" یا کسی بھی " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہےاور اس سے حاصل ہونے والی کمائی بھی جائز نہیں ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ."﴿المائدة: ٩٠﴾

ترجمہ:" اے ایمان والو :بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام  ہیں ،سواس سے بالکل الگ رہو،تاکہ تم کو فلاح ہو۔"(بیان القرآن)

مسند احمد میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله حرم على أمتي الخمر، والميسر، والمزر، والقنين، والكوبة، وزادني  صلاة الوتر " 

(مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنهما جلد ۱۱ص: ۱۲۴ ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة: مقابلة شيء بشيء مالا أو لا ......وشرعا: (مبادلة شيء مرغوب فيه بمثله) خرج غير المرغوب كتراب وميتة ودمعلى وجه) مفيد. (مخصوص)

(قوله: هو لغة مقابلة شيء بشيء) أي على وجه المبادلة ولو عبر بها بدل المقابلة لكان أولى كما فعل المصنف فيما بعد، وظاهره شمول الإجارة؛ لأن المنفعة شيء باعتبار الشرع أنها موجودة حتى صح الاعتياض عنها بالمال، وكذا باعتبار اللغة تأمل. مطلب في تعريف المال والملك والمتقوم (قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لا يكون مالا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم، فلذا فسد البيع بجعلها ثمنا، وإنما لم ينعقد أصلا بجعلها مبيعا؛ لأن الثمن غير مقصود بل وسيلة إلى المقصود، إذ الانتفاع بالأعيان لا بالأثمان، ولهذا اشترط وجود المبيع دون الثمن، فبهذا الاعتبار صار الثمن من جملة الشروط بمنزلة آلات الصناع وتمام تحقيقه في فصل النهي من التلويح. ومن هذا قال: في البحر: ثم اعلم أن البيع وإن كان مبناه على البدلين لكن الأصل فيه المبيع دون الثمن؛ ولذا تشترط القدرة على المبيع دون الثمن وينفسخ بهلاك المبيع دون الثمن. اهـ.

وفي التلويح أيضا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك عند الشافعي."

(کتاب البیوع جلد ۴ ص: ۵۰۱ ط: دارالفکر)

در المختار میں ہے:

"‌‌باب الصرف عنونه بالباب لا بالكتاب؛ لأنه من أنواع البيع (هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافا أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح، و) العوضان (لا يتعينان) حتى لو استقرضا فأديا قبل افتراقهما أو أمسكا ما أشار إليه في العقد وأديا مثلهما جاز.(ويفسد) الصرف (بخيار الشرط والأجل) لإخلالهما بالقبض."

(کتاب البیوع ، باب الصرف جلد ۵ ص: ۲۵۷۔۲۵۹ ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144402100875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں