بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیجیٹل اور ہاتھ سے بنائی ہوئی تصاویر اور بچوں کے گڑیا وغیرہ دیکھنے کا حکم


سوال

جب ڈیجیٹل تصویر بنانا جائز نہیں ہے تو کیا اس کو دیکھنا جائز ہے؟ اور اگر جائز نہیں ہے تو کیا ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر کو دیکھنا جائز ہے؟ اور اگر یہ بھی جائز نہیں ہے تو کیا گڑیا وغیرہ اور جو بچوں کے کھلونے ہوتے ہیں ان کو دیکھنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ تصویر چاہے ڈیجیٹل ہو یا ہاتھ کی بنائی ہوئی ہو ،دونوں قسم کی تصویریں  بنانا،رکھنا ،دیکھنا نا جائز ہے، نیز تصویر اگر عورت کی ہو یا اس میں کسی کا ستر واضح ہو تو  اس میں بد نظری کا گناہ بھی ہوگا، اور اگر تصویر عورت کی نہ ہو، اور اس میں کسی کا ستر بھی نظر نہ آرہا ہو، لیکن دیکھ کر فرحت یا لذت محسوس ہو تو بھی ناجائز ہے کہ حرام چیز کو دیکھ کر خوش ہونا بھی ناجائز ہے، البتہ اگر ارادے کے بغیر اس پر نگاہ پڑ جائے تو اس میں حرج نہیں۔

اسی طرح اگر گڑیا وغیرہ جان دار  کی صورت والی ہو، یا ان میں جان دار کی تصویر ہو (جیساکہ عموماً  گڑیاں وغیرہ ہوتی ہیں) تو ایسی تصویر والی گڑیا وغیرہ کو دیکھنا اور اپنے پاس رکھنا بھی ناجائز ہے، البتہ اگر وہ جان دار کی صورت والی نہ ہوں تو مضائقہ نہیں ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن سعيد بن أبي الحسن قال: كنت عند ابن عباس رضي الله عنهما: إذ أتاه رجل فقال: يا أبا عباس، ‌إني ‌إنسان، إنما معيشتي من صنعة يدي، وإني أصنع هذه التصاوير. فقال ابن عباس: لا أحدثك إلا ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: سمعته يقول: (من صور صورة فإن الله معذبه حتى ينفخ فيها الروح، وليس بنافخ فيها أبدا). فربا الرجل ربوة شديدة واصفر وجهه، فقال: ويحك، إن أبيت إلا أن تصنع، فعليك بهذا الشجر، كل شيء ليس فيه روح."

(كتاب البيوع، باب: بيع التصاوير التي ليس فيها روح، وما يكره من ذلك، ج: 2، ص: 775، رقم: 2112، ط: دار اليمامة - دمشق)

الشرح الكبير للشيخ الدردير میں ہے:

"والحاصل أنه يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء إذا كان يدوم إجماعا وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ ويحرم النظر إليه إذ النظر إلى المحرم حرام."

(باب في النكاح وما يتعلق به، فصل الوليمة، ج: 2، ص: 338،337، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وحرم ‌الانتفاع بها) ولو لسقي دواب أو لطين أو نظر للتلهي."

(‌‌كتاب الأشربة، ج: 6، ص: 449، ط: سعيد)

البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"‌ويكره ‌التصاوير المراد بها التماثيل اهـ.

قوله وتكره التصاوير على الثوب إلخ ويمكن أن يقال ليس مراد الخلاصة تصوير التصاوير بل استعمالها أي استعمال الثوب التي هي فيه."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 2، ص: 29، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں