بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جُمادى الأولى 1446ھ 06 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیفنس سرٹیفیکٹ کے طور پر جمع کی گئی رقم کا حکم


سوال

میں سعودی عرب میں رہتا تھا، میری بیوی اور میرا ایک بچہ بھی میرے ساتھ تھے، سعودی عرب میں ہی میری بیوی کا انتقال ہوگیا، پھر میں پاکستان آگیا، اس وقت بچے کی عمر سات مہینے تھی، بچے کی پرورش سے متعلق اختلاف ہوا، لیکن بالآخر وہ اپنے نانا، نانی کے پاس رہا اور اُن ہی کے پاس پرورش ہوئی، پھر نانا، نانی کے انتقال کے بعد اب کبھی میرے گھر پر رہتا ہے اور کبھی اپنے ماموں کے گھر پر، میری بیوی کی ملکیت میں 103 تولہ سوناتھا، جس میں سے 60 تولہ میری ساس نے دیاتھا اور باقی میں نے دیا تھا، ساس نے بھی بطورِ گفٹ دیا تھا اور میں نے بھی بطورِ گفٹ دیا تھا،اس کے علاوہ میری بیوی کا فرنیچر تھا بھی تھا جو اُن کو اُن کےوالدین نے دیا تھا، جب میرے بچے کی عمر سات سال ہوئی تو میرے سسرال والوں نے وہ فرنیچر اور زیورات فروخت کردیے، اس وقت کےحساب سے اس سے جو رقم حاصل ہوئی تھی وہ ساڑھے 4 لاکھ روپے تھے، پھر اُنہوں نے یہ رقم ہائی کورٹ میں ڈیفنس سرٹیفکٹ کے طور پر جمع کروائی، اب وہ رقم بڑھ گئی ہے،یعنی اب اگر وہ رقم ہم نکالیں گے تو اس کے ساتھ سودی منافع بھی ملے گا، اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ پوری رقم سودی منافع کے ساتھ حلال ہوگی یا صرف اصل رقم جوجمع کروائی تھی صرف وہی حلال ہوگی اور سودی منافع حلال نہیں ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جتنی رقم جمع کروائی تھی(یعنی ساڑھے چار لاکھ روپے) صرف وہی رقم حلال ہوگی، باقی جو سودی منافع ہے تو وہ ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: ‌لعن ‌رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال: "هم سواء."

(‌‌كتاب البيوع‌‌، باب الربا‌‌، الفصل الأول: 244، ط: قدیمي)

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسود کھانے والے پر، کھِلانے والے پر، سودی معاملہ لکھنے والے پر اور سودی معاملہ کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہےاور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔

تفسیرِ ابن کثیر  میں ہے:

"ثم قال تعالى: (وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُسُ أَمْوالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ) أي بأخذ الزيادة (ولا تُظْلَمُونَ) أي بوضع رؤوس الأموال أيضا، بل لكم ما بذلتم من غير زيادة عليه ولا نقص منه."

(سورة البقرة، الآية: 279، 554/1، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وعلى هذا قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه. اهـ"

(کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، 385/6، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں