بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ذیابیطس کے مریض کا مسلسل روزہ رکھنا


سوال

 میرے والد جنکی عمر 70 سال ہے،  ماشاءاللہ سے نماز، روزوں کے پابند اور تہجد گزار ہیں، حالیہ رمضان کے روزوں کے بعد 6 شوال کے روزے رکھ چکے ہیں ،مگر ابھی بھی تسلسل کے ساتھ نفلی روزوں کی نیت سے روزے رکھ رہے ہیں ،وہ ذیابیطس(Diabetes) کے مریض ہیں اور اسی مناسبت سے دوا بھی لیتے ہیں، ہمیں ان کا وزن تیزی سے گرتا نظر آ رہا ہے، کچھ پڑوسیوں اور   رشتہ  داروں کو بھی وہ جسمانی کمزور لگ رہے ہیں، مگر نہ تو وہ ڈاکٹر سے رہنمائی کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی روزے چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، وہ مسلسل ضد میں روزے رکھ رہے ہیں ، ہیٹ اسٹروک کے الرٹ بھی ان پر بے اثر ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ وہ خود کو بہتر محسوس کرتے ہیں اور اگر روزے میں ان کا انتقال ہوا تو وہ شہید ہونگے اور اللہ قربانی لیتے نہیں ہیں لیکن مانگتے ہیں، ہم تمام گھر والے اس سلسلے میں بہت پریشان ہیں برائے مہربانی ان تمام صورتحال پر قرآن، حدیث، سنت سے رہنمائی فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ مسلسل روزہ رکھنا اس صورت میں جائز ہے جب کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے آدمی اپنے ذمے کے فرائض و واجبات میں کمی کوتاہی نہ کرے، تاہم سال میں پانچ دن (عید الفطر کے دن اور ایامِ تشریق  یعنی دس، گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ میں )  روزے  رکھنا جائز نہیں ہے۔

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ مسلسل روزے رکھنے  سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، گو  یہ ممانعت حرمت کے لیے نہیں ہے، لیکن رسول اللہ  ﷺ   نے  امت کے لیے بھی اعتدال کے ساتھ اتنی عبادت کو پسند فرمایا ہے جس معمول کو آدمی پابندی سے نباہ سکے، اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی میں بظاہر تھوڑے عمل میں اجر زیاد ہے، چناں چہ آپ ﷺ نے  رمضان المبارک کے علاوہ ہر ماہ تین دن روزے  رکھنے کو  ساری  زندگی روزے  کے ثواب کے برابر قرار دیا ہے۔

بہرحال سال بھر روزہ رکھنا جائز تو ہے لیکن ان باہمت لوگوں کے لیے جو اِسے نباہ سکیں اور اپنے ذمے کے فرائض و واجبات میں کوتاہی نہ کریں،لہذا سائل کے والد اگر ذیابیطس کے مریض ہیں اور کثرت سے روزہ رکھنے سے ان کی صحت بگڑنے کا اندیشہ ہو  تو  انہیں چاہیے کہ وہ مسلسل روزہ نہ رکھیں ،ہر ماہ ایام بیض اور پیر جمعرات کے روزہ کا اہتمام کرلیں ،یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔

وفي مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح:

"وكره صوم الدهر" لأنه يضعفه أو يصير طبعا له ومبنى العبادة على مخالفة العادة."

 (كتاب الصوم,فصل في صفة الصوم وتقسيمه ,ص: 237الناشر: المكتبة العصرية)

وفي بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :

"ومنها صوم الوصال، لما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «لا صام من صام الدهر».

وروي أنه «نهى عن صوم الوصال» فسر أبو يوسف ومحمد رحمهما الله الوصال بصوم يومين لا يفطر بينهما، لأن الفطر بينهما يحصل بوجود زمان الفطر، وهو الليل، قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: «إذا أقبل الليل من ههنا وأدبر النهار من ههنا فقد أفطر الصائم أكل، أو لم يأكل» وقيل في تفسير الوصال: أن يصوم كل يوم من السنة دون ليلته، ومعنى الكراهة فيه: أن ذلك يضعفه عن أداء الفرائض، والواجبات ويقعده عن الكسب الذي لا بد منه، ولهذا روي أنه «لما نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن الوصال وقيل له: إنك تواصل يا رسول الله، قال: إني لست كأحدكم، إني أبيت عند ربي يطعمني ويسقيني» أشار إلى المخصص وهو اختصاصه بفضل قوة النبوة، وقال بعض الفقهاء: من صام سائر الأيام وأفطر يوم الفطر، والأضحى وأيام التشريق لا يدخل تحت نهي صوم الوصال، ورد عليه أبو يوسف فقال: ليس هذا عندي، كما قال والله أعلم هذا قد صام الدهر كأنه أشار إلى أن النهي عن صوم الدهر ليس لمكان صوم هذه الأيام بل لما يضعفه عن الفرائض، والواجبات ويقعده عن الكسب ويؤدي إلى التبتل المنهي عنه والله أعلم."

(كتاب الصوم,فصل شرائط أنواع الصيام,2/ 79الناشر: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144310100784

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں