بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ذیابیطس اور پروسٹیٹ بیماری کی وجہ سے پیشاب کی حاجت بار بار ہونا اور اس سے پاکی کا حکم


سوال

 144409101709 مذکورہ فتوی کی رو سے ایک مسئلہ کچھ یوں ہے :

ذیابیطس اور پروسٹیٹ کی وجہ سے پیشاب کی حاجت بار بار ہوتی ہے ، اور خاص  کر اُٹھتے بیٹھتے  پیشاب کے قطرے آتے رہتے ہیں ، عام حالات میں انڈرویئر میں ٹشو رکھ کر کپڑے کسی حد تک ناپاک ہونے سے بچاتا ہوں ، اور کوشش ہوتی ہے نماز سے پہلے ٹشو پھینک دوں اور وضو کرکے نماز پڑھ لوں ، لیکن حج کے موقع پر تین سے پانچ دن تو صرف تولیہ میں رہنا ہوتا ہے ، اور انڈر ویئر بھی نہیں پہننا ہوتا ، تو اُن دنوں پیشاب کے بعد قطروں سے پاکی کا کیسے خیال رکھوں ؟

جواب

مذکورہ صورت میں اگر واقعۃً باربار پیشاب کی حاجت ہوتی ہے ، تو ایسی صورت احرام کی حالت میں ایسا لنگوٹ جو سلا ہوا نہ ہو یالنگوٹ کی طرح کپڑا باندھ لیں   یا کوئی رومال وغیرہ باندھ لیا جائے اور اس کے اندر عضو کو ٹشو میں لپیٹ لیں ، تاکہ احرام ناپاک نہ ہو ، نماز کے وقت ٹشو کو تبدیل کرلیں ، نیز ایک صورت یہ بھی ہے کہ احرام کی ایک سے زائد چادر رکھ لیں ، جو پہنی ہے جب اس پر قطرات لگ جائیں تو پہنے رہیں ، جب نماز یا طواف کریں تب چادر بدل لیں ، پاک پہن لیں ناپاک الگ رکھ دیں ، پھر اسے پاک کرکے استعمال کریں ،باقی واضح رہے کہ دورانِ حج و عمرہ طواف کے لیے وضو ضروری ہے، طواف کے علاوہ حج و عمرہ کے دیگر افعال کے لیے وضو ضروری نہیں ہے،  اس لیے باقی افعال میں مریض و غیر مریض کا حکم ایک جیسا ہو گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله .... المستحاضة ومن به سلس البول .… یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل .… ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق .… إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار."

(كتاب الطهارة، الباب السادس، الفصل الرابع، ج:1، ص:40، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وصاحب ‌عذر ‌من ‌به ‌سلس) ‌بول ‌لا ‌يمكنه ‌إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لِدُلُوكِ الشَّمْسِ} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه.وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر. (وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى. وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه(و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، مطلب في أحكام المعذور، ج:1، ص:305، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولا ‌يكره ‌لبس ‌الخز والقصب إذا لم يكن مخيطا كذا في فتاوى قاضي."

(كتاب المناسك، الباب الخامس، ج:1، ص:224، ط:رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يجوز ‌تطهير ‌النجاسة بالماء وبكل مائع طاهر يمكن إزالتها به كالخل وماء الورد ونحوه."

(كتاب الطهارة، الباب السابع، الفصل الأول، ج:1، ص:41، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101156

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں