بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دھوکے سے کیے گئے نکاح اور مہر کا حکم


سوال

میری شادی ایک دماغی مریضہ کے ساتھ جھوٹ بول کر دھوکہ دہی  کے ساتھ کی گئی،جس کا علم مجھے شادی کے بعد ہوا،تفتیش کے بعد اس لڑکی کے والد ،بہنوں اور کزن نے خود اقرار کیا کہ یہ مسئلہ اس کے ساتھ پرانا ہے،میرے والد کا انتقال دو سال پہلے ہوچکا تھا،جب کہ والدہ کا انتقال رواں سال جون میں ہواہے،یہ رشتہ میری والدہ نے ہی طے کیا تھا ،جس کی وجہ سے ہم نے زیادہ تفتیش نہیں کی،اوروالدہ کی زندگی میں شادی 2023ء میں طے پائی تھی ،لیکن والدہ کے انتقال کے بعد ہم نے اگست 2022ء میں شادی کا مطالبہ کیا اور انہوں نے قبول کرلیا،نکاح اور رخصتی کے وقت لڑکی بالکل نارمل تھی ،لیکن ولیمہ کے اگلے دن ہی بہت عجیب حرکات سامنے آنے لگیں مثلاً چولہے کی گیس کھول کر نکل جانا۔

(2) رات بھر جاگتے رہنا اوردن میں بھی نہ ہونے کے برابر سونا۔

(3) ہمبستری کے دوران نازیبا الفاظ استعمال کرنا جس کا استعمال صرف  ایک کردار سے گری ہوئی عورت ہی  کر سکتی ہے۔

(4) شادی کے بعد 9 دن تک چوبیس گھنٹے صرف ہمبستری کی خواہش کرنا۔

(5) ضرورت سے زیادہ خوشبو اور پرفیوم لگانا۔

(6) میک اپ کرکے اس کو گندا کرنا،اور اس طرح کی عجیب و غریب سے حرکات ہیں،خود لڑکی سے معلوم کرنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ اس کی خراب حرکتوں ،ضدی پن  کی وجہ سے اس کو مارا پیٹا جاتا رہا،اوراس کے پسند کے لڑکے نے اس کو چھوڑ دیا جس کا نام وہ ہمبستری کے دوران کثرت کے ساتھ لیتی تھی،یہ ساری باتیں مجھ پر شادی کے بعد عیاں ہوئیں ،اور اس کے والدین سے معلوم کرنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ مسائل اس کے ساتھ 2016ء سے ہیں ،اور ان کے خاندان میں اس طرح کے اور بھی ذہنی مریض ہیں۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ ایسی صورتِ حال میں فراڈ اور جھوٹ بول کر کیا گیا نکاح قابل ِ قبول ہوگا؟

(2) اس طرح کی ذہنی مریضہ لڑکی کے ساتھ طلاق اور علیحدگی کے معاملات کے بارے میں کیا حکم ہے؟

(3) طلاق کی صورت میں مہر واجب الاداء ہوگا؟

(4) علیحدگی وطلاق کے بعد حمل ٹھر جانے کی صورت میں ہونےوالے بچے یا بچی کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرسائل کا بیان واقعۃً درست ہے کہ اس کا نکاح فراڈ اور جھوٹ بول کر جس عورت کے ساتھ کیا گیا ،جس کی عادات اخلاق اور کردار سے گری ہوئی ہیں جن کو برداشت کرنا ایک شریف   انسان کے بس کی بات نہیں ،ایسی صورت میں شرعاً یہ نکاح منعقد تو ہوگیا ہے، اگرچہ جھوٹ اور دھوکہ دے کر کیا گیا،اور وہ لڑکی سائل کی بیوی ہے،اور سائل کو چاہیے کہ حتی الامکان اس رشتے کو نبھانے کی کوشش کرے،اور علاج ومعالجہ کے ذریعے اس لڑکی کے ذہنی مرض کو درست کروانے کی کوشش کرے،اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھے۔

(2) بصورتِ دیگر اگر سائل یہ سمجھتا ہے کہ اس کے لیے یہ رشتہ نبھانا مشکل ہوگا،تو شریعت اس کو علیحدگی اختیار کرنے کا حق دیتی ہے،کہ اس لڑکی کو طلاق دے کر اس سے خلاصی حاصل کرسکتا ہے۔

(3)  سائل نے نکاح میں جو مہر مقرر کیا تھا وہ  مکمل مہرسائل کے ذمہ        قرض ہے ،اور اس کی ادائیگی سائل پر لازم ہے۔

(4) میاں بیوی کی علیحدگی کی صورت میں اگر پیدا ہونے والا لڑکا ہو تو اس کے کمانے کے قابل ہونے تک ،اور لڑکی کی صورت میں اس کی شادی تک انکے خرچ کی ذمہ داری  والد (سائل ) پر ہے،اور بچے کی پرورش کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر پیدا ہونے والا  لڑکا ہو تو  اس کی   سات سال کی عمر ہونے تک اور اگر   بچی ہو تو اس  کی نو سال کی عمر ہونے تک ماں   اپنی پرورش میں رکھنے کا حق رکھتی ہے،اس کے بعد باپ کا حق ہوتا ہے۔

فتح القدیرمیں ہے:

"لأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة؛ لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشةً للخسيس، فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها؛ لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش."

(کتاب النکاح، باب الاولیاء والاکفاء، فصل فی الکفاءۃ،3/293 ط: دار الفکر)

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما أحكامه) فحل استمتاع كل منهما بالآخر على الوجه المأذون فيه شرعا، كذا في فتح القدير وملك الحبس وهو صيرورتها ممنوعة عن الخروج والبروز ووجوب المهر والنفقة والكسوة عليه وحرمة المصاهرة والإرث من الجانبين...إلي آخره."

(کتاب النکاح، الباب الاول ،1/ 270، ط: مکتبہ رشیدیہ)

و فیہ ایضاً:

"المهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، كذا في البدائع."

(کتاب النکاح، الباب السابع فی المہر،1/ 304، ط: مکتبہ رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة." 

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر فی النفقات، 1/ 562، ط: رشيدیہ)

وفیہ ایضاً:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين. وقال القدوري: حتى يأكل وحدَه، ويشرب وحدَه، ويستنجي وحدَه. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد رحمه الله تعالى: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح، هكذا في التبيين."

(کتاب الطلاق،الباب السادس عشر ،542/1،ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں