بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دھوکے سے لی گئی چیز واپس لوٹانا لازم ہے


سوال

میں اپنے بچپن میں انگلش فلمیں  اور ویڈیو گیمز کھیلا  کرتا تھا اور کمزور ایمان کی وجہ سے میں ان دیکھی گئی سی ڈیوں کو دوسری سی ڈیوں سے چھپ کر بدل لیا کرتا تھا، اب میں ایک اور شہر میں منتقل ہوچکا ہوں، اب مجھے اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہے اور میرے ضمیر پر بڑا بوجھ ہے،اب اتفاق کی بات یہ ہے کہ ایک دکاندار نے اپنی دکان وہاں سے ختم کردی ہے اور یہ اس دوران ہوا، جب میں دوسرے شہر میں منتقل ہوگیا تھا،میں اب اپنی غلطی کا تدارک کیسے کرسکتا ہوں؟ اور کیا ان دوکان داروں کے سامنے شرمندہ ہوئے بغیر میرے لیے تدارک کا کوئی طریقہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فلمیں دیکھنا اور ویڈیو گیمز کھیلنا اور ان کی سی ڈیوں کی خرید و فرخت شرعا جائز نہیں، تاہم فلموں یا گیموں کی سی ڈیوں  میں ملکیت ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ سی ڈی کی ممانعت اس کے اندر موجود ممنوع ڈیٹا کی وجہ سے ہے، اپنی ذات کے اعتبار سے وہ چیز قابل ملکیت ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل پر لازم ہے کہ حتی الامکان ان دکان داروں کو تلاش کرے اور ان کو وہ سی ڈیاں یا ان کی رقم واپس لوٹائے اور اگر وہ مالک نہ ملیں، تو ان سی ڈیوں کی قیمت ان مالکان کی جانب سے کسی غریب پر صدقہ کردے، پھر اگر وہ مالک مل جائے ، تو اس کو بتا دے، اگر وہ اس پر راضی ہوجائے تو ٹھیک، ورنہ اتنی رقم مالک کو بھی دے دے۔

اور اگر سائل کو ان مالکان کا سامنا کرنے میں عار اور شرمندگی محسوس ہورہی ہو، تو یہ بھی گنجائش ہے کہ وہ رقم ان مالکان کو کسی اور عنوان سے واپس کردے، مثلاً ہدیہ اور تحفہ کے نام سے واپس کردے، یا ان کو کوئی چیز ان کے واجب حق کے برابر قیمت والی فروخت کرکے بعد میں قیمت معاف کرکے  کہہ دے کہ ہدیہ میں دی ہے، غرض نیت تو واجب حق ادا کرنے کی ہو، لیکن دینے کا عنوان ہدیہ وغیرہ ہو تویہ  جائز ہے، اصل مقصد حق دار کو حق پہنچانا ہے۔

مرقاة المصابیح"میں ہے:

"الذنب ما يذم به الآتي به شرعا، وهو أربعة أقسام: قسم لا يغفر بلا توبة وهو الكفر، ‌وقسم يرجى أن يغفر بالاستغفار وسائر الحسنات وهو الصغائر، ‌وقسم يغفر بالتوبة وبدونها تحت المشيئة وهو الكبائر من حق الله تعالى، ‌وقسم يحتاج إلى التراد وهو حق الآدمي، والتراد إما في الدنيا بالاستحلال أو رد العين، أو بدله، وإما في الآخرة برد ثواب الظالم للمظلوم، أو إيقاع سيئة المظلوم على الظالم، أو أنه تعالى يرضيه بفضله وكرمه۔"

(کتاب الإيمان ،باب الکبائر و علامات النفاق،ج:1،ص:121،ط:دارالفكر )

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"والأصل أن ‌المستحق ‌بجهة إذا وصل إلى ‌المستحق ‌بجهة أخرى اعتبر واصلا بجهة مستحقة إن وصل إليه من المستحق عليه، وإلا فلا، وتمامه في جامع الفصولين.

(قوله أن ‌المستحق ‌بجهة) كالرد للفساد هنا فإنه مستحق للبائع على المشتري، ومثله رد المغصوب على المغصوب منه (قوله بجهة أخرى) كالهبة ونحوها."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج: 5، ص:92، ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"(عليه ديون ومظالم ‌جهل ‌أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا تعلم بينهم خلافا كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها اعتبارا للديون بالأعيان (و) متى فعل ذلك (سقط عنه المطالبة) من أصحاب الديون."

"(قوله: ‌جهل ‌أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم. وفي الفصول العلامية: من له على آخر دين فطلبه ولم يعطه فمات رب الدين لم تبق له خصومة في الآخرة عند أكثر المشايخ؛ لأنها بسبب الدين وقد انتقل إلى الورثة. والمختار أن الخصومة في الظلم بالمنع للميت، وفي الدين للوارث. قال محمد بن الفضل: من تناول مال غيره بغير إذنه ثم رد البدل على وارثه بعد موته برئ عن الدين وبقي حق الميت لظلمه إياه، ولا يبرأ عنه إلا بالتوبة والاستغفار والدعاء له. اهـ. (قوله: فعليه التصدق بقدرها من ماله) أي الخاص به أو المتحصل من المظالم. اهـ. ط وهذا إن كان له مال. وفي الفصول العلامية: لو لم يقدر على الأداء لفقره أو لنسيانه أو لعدم قدرته قال شداد والناطفي رحمهما الله تعالى: لا يؤاخذ به في الآخرة إذا كان الدين ثمن متاع أو قرضا، وإن كان غصبا يؤاخذ به في الآخرة، وإن نسي غصبه، وإن علم الوارث دين مورثه والدين غصب أو غيره فعليه أن يقضيه من التركة، وإن لم يقض فهو مؤاخذ به في الآخرة، وإن لم يجد المديون ولا وارثه صاحب الدين ولا وارثه فتصدق المديون أو وارثه عن صاحب الدين برئ في الآخرة.

مطلب فيمن عليه ديون ومظالم ‌جهل ‌أربابها (قوله: كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها) يشمل ما إذا كانت لقطة علم حكمها، وإن كانت غيرها فالظاهر وجوب التصدق بأعيانها أيضا (قوله: سقط عنه المطالبة إلخ) كأنه والله تعالى أعلم؛ لأنه بمنزلة المال الضائع والفقراء مصرفه عند جهل أربابه، وبالتوبة يسقط إثم الإقدام على الظلم ط (قوله: يجب عليه أن يتصدق بمثله) المختار أنه لا يلزمه ذلك في القهستاني عن الظهيرية، وكذا في البحر والنهر عن الولوالجية."

(كتاب اللقطة، ج:4، ص:283، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"وفيه: الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لايطيب له ولا للمشتري منه.

 (قوله: الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريباً (قوله: ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئاً؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان، وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه".

 (کتاب البیوع،باب البیع الفاسد ، مطلب الحرمة تتعدد، 5/ 98، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412101461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں