بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دھوکہ اور جعل سازی سے انعام حاصل کرنا


سوال

 ہمارے علاقے کے کافی لوگ چین کے ساتھ کاروباری تعلقات رکھتے ہیں، وہاں سے اگر کاروباری حضرات کباڑ کا مال خریدتے ہیں تو حکومت کی طرف سے انعامات ملتے ہیں، اور اگر فریش مال خریدتے ہیں تو حکومت کی طرف سے انعام نہیں ملتا، اب یہ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ وہاں کسی ایجنٹ کو پیسے دے کر فریش مال خرید کر نکلواتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ کباڑ کا مال خریدا ، جس پر حکومت کی جانب سے انعام ملتا ہے، حالانکہ مال فریش خریدا ہوتا ہے، تو کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں باہر ملک سے فریش (نیا) مال خرید کر ایجنٹ کے ذریعے (رقم دے کر) کباڑ کا مال ظاہر کرنا اور حکومت سے انعام کی مد میں مالی فائدہ حاصل کرنا دھوکہ اور جعل سازی کی بناء پرشرعاً ناجائز اور حرام ہے، احادیث  مبارکہ میں دھوکہ اور جعل سازی سے متعلق سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، نیز اس دھوکہ اور جعل سازی کے لئے رشوت بھی دی جاتی ہے،  جس کے بارے میں احادیث میں ایسا کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے،  لہذا ایسا معاملہ کرنا جس میں دھوکہ اور رشوت ہو بالکل جائز نہیں، اگر کیا تو کرنے والا گناہ گار ہوگا، نیز اس انعامی رقم کومتعلقہ حکام کو واپس کرنا بھی ضروری ہوگا،ورنہ غرباء پر صدقہ کرنا لازم ہو گا۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌غشنا فليس منا."

(كتاب البيوع والأقضية‌‌، ما ذكر في الغش: 4/ 563، ط: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة)

وفیہ ایضا:

"عن ثوبان، قال: لعن النبي صلى الله عليه وسلم ‌الراشي والمرتشي والرائش، يعني الذي يمشي بينهما."

(كتاب البيوع والأقضية‌‌، ‌‌في الوالي والقاضي يهدى إليه: 4/ 444، ط: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"فإنما حصل له الربح فيه بسبب خبيث شرعا والسبيل في ‌الكسب ‌الخبيث التصدق."

(كتاب الكراهية، فصل في البيع: 6/ 27، ط: دار المعرفة، بيروت)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية" میں ہے:

"المتبرع ‌لايرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(كتاب المداينات: 2/ 226، ط: دار المعرفة)

بذل المجهود في حل سنن أبي داود:

"لأن ‌الخائن ‌هو ‌الذي ‌يأخذ ‌ما ‌ليس ‌له أخذه ظلما أو عدوانا."

(كتاب البيوع، باب: في الرجل يأخذ حقه من تحت يده: 11/ 262، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں