بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دھوکہ دہی کرنا


سوال

آج کل دھوکہ بازی سر عام ہورہی ہے،فروٹ والے بہت دھوکہ کرتے ہیں خراب فروٹ دھوکے سے فروخت کرتے ہیں،ملاوٹ بے انتہاء بڑھ گئی ہے،اسی طرح دودھ اور کھلے گھی میں دھوکا بہت زیادہ ہونے لگا ہے،اسی طرح دیگر چیزیں جو مارکیٹ میں ملتی ہیں،کیا ان کا یہ طریقہ صحیح ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  شریعت مطہرہ میں کسی بھی قسم کی دھوکہ دہی اور جھوٹ بولنے پر شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، چنانچہ ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو مسلمان کی شان کے خلاف بتایا ہے، اور فرمایا کہ:"مومن ہر خصلت  پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے"۔ایک اور روایت میں جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔

اسی وجہ سے آج ہمارے معاشرہ میں بے برکتی ہے،ہر شخص اپنی اپنی جگہ پریشان ہے،اگر اس دھوکہ بازی اور ملاوٹ سے توبہ نہیں کی گئی تو ہمارا حال اور برا ہوجائے گا،حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک غلہ فروخت کرنے والے کے پاس سے گزرے، آپ نے اپنا ہاتھ غلہ کے اندر ڈالا تو ہاتھ میں کچھ تری محسوس ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا یہ تری کیسی ہے؟ غلہ کے مالک نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس پر بارش ہو گئی تھی، آپ نے فرمایا تم نے اس بھیگے ہوئے غلہ کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اس کو دیکھ لیتے،جس شخص نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

لہذا ہمیں چاہیے کہ اپنے معاشرے کو ان چیزوں سے پاک کریں،جو لوگ بھی دھوکہ دہی کرتے ہیں وہ حضور کے ان ارشادت کو سامنے رکھیں اور اس فعل سے اجتناب کی کوشش کریں۔

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."

( ج: 36، صفحه: 504، رقم الحدیث: 22170، ط: مؤسسة الرسالة)

مسلم شریف میں ہے:

" (102) وحدثني ‌يحيى بن أيوب، ‌وقتيبة، ‌وابن حجر جميعا، عن ‌إسماعيل بن جعفر . قال ابن أيوب: حدثنا إسماعيل قال: أخبرني ‌العلاء ، عن ‌أبيه ، عن ‌أبي هريرة « أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال: أصابته السماء، يا رسول الله. قال: أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ ‌من ‌غش ‌فليس مني."

(ج:1، ص:69، ط: دار المنھاج)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144404101210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں