بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دھوکہ دینے والے کاروبار میں ملازمت کا حکم


سوال

 ہمارے ہاں ایک فیکٹری ہے پاؤڈر  دودھ کی اس میں اکسپائر دودھ میں ملاوٹ کرکے  نیا پیش کر کے   آگے بیچا جاتا ہے،اب اس میں جو مزدور کام کرتا ہے تو اس کی تنخواہ کا کیا حکم ہےجب کہ مزدور کو معلوم ہے کہ دودھ اکسپائر ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں وہ ملازمین جن کی   ذمہ داری  ہی ملاوٹ کرنا ہو   ان کی تنخواہ حرام ہے اور واجب التصدق ہے جب کہ دیگر ملازمین جو ملاوٹ  کے عمل میں شریک نہیں تو اگر کمپنی کی غالب آمدن اس دھوکے کے مال سے ہوتی ہو تو ان دیگر ملازمین کی تنخواہ مکروہ ہوگی  اور اگر غالب آمدن حلال ہوتو ان دیگر ملازمین کی تنخواہ حلال ہوگی ورنہ نہیں۔

شرح المجلۃ میں ہے :

"‌والمعقود ‌عليه ‌هو ‌العمل، ‌أو ‌أثره ‌على ‌ما ‌بينا؛ ‌فلا ‌بد ‌من ‌العمل. فمتى، أوفى العامل العمل استحقت الأجرة."

(الكتاب الثاني الإجارة،الباب الأول،‌(المادة 424) الأجير المشترك لا يستحق الأجرة إلا بالعمل،ج1،ص457،ط:دار الجیل)

مبسوط میں ہے :

"الاستئجار ‌على ‌المعاصي ‌باطل فإن بعقد الإجارة يستحق تسليم المعقود عليه شرعا ولا يجوز أن يستحق على المرء فعل به يكون عاصيا شرعا."

(كتاب الإجارات،باب الإجارة الفاسدة،ج16،ص38،ط:دار المعرفة)

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي الأشباه الحرمة تنتقل مع العلم....وفي الذخيرة: سئل أبو جعفر عمن اكتسب ماله من أمر السلطان والغرامات المحرمة، وغير ذلك هل يحل لمن عرف ذلك أن يأكل من طعامه؟ قال: أحب إلي في دينه أن لا يأكل ويسعه حكما إن لم يكن غصبا أو رشوة اهـ وفي الخانية: امرأة زوجها في أرض الجور إذا أكلت من طعامه، ولم يكن عينه غصبا أو اشترى طعاما أو كسوة من مال أصله ليس بطيب فهي في سعة من ذلك والإثم على الزوج."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،ج6،ص385-386،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں